سی پیک کی بدولت دوسرے صوبے مالا مال ہو گئے ہیں، جبکہ بلوچستان کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔سردار اختر مینگل

156

بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ملک میں نہ تو سیاست باقی ہے اور نہ ہی جمہوریت کا کوئی اثر دکھائی دیتا ہے انتخابی عمل محض ایک سیاسی چال ہوگا، جس میں منتخب ہونے والے امیدوار جمہوری عمل کے ذریعے نہیں بلکہ قوتوں کی حمایت سے آئیں گے سیاست کے موجودہ حالات میں ملک میں بزنس مین اور کاروباری لوگ اپنی کرپشن کے ذریعے دولت کو محفوظ کرنے اور اپنے کاروباری مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے سیاست کر رہے ہیں سیاست ملک کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ ان کے ذاتی مفادات کے لیے کی جا رہی ہے، بلوچستان کی موجودہ حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حکام نے صوبے کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی حقیقی اقدامات نہیں کیے۔ ان کے مطابق، بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی بجائے حکام نے صرف وقت ضرورت پر عوام کو ووٹ دینے کے لیے توجہ دی ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کوئی بھی سیاسی جماعت، چاہے ان کے پاس صرف چند ووٹ ہوں، وہ ہمیشہ سیاستی مفادات کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بلوچستان کے مسائل پر بات کرتی ہیں، مگر جب بات مسائل کے حل کی آتی ہے تو ان میں کوئی سنجیدگی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آنے والے تمام حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش کی ہے اور بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں کبھی کوئی حقیقی دلچسپی نہیں دکھائی۔ مختلف سیاسی اتحاد جیسے بھٹو کے دور سے لے کر پی ایم اے، ایم آر ڈی، اور اے آر ڈی تک ہمیشہ وقتی اتحاد رہے ہیں، جن کا مقصد صرف ایک سیاسی ہدف کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے، ان اتحادوں کے بڑے اسٹیک ہولڈرز پھر اپنے وعدوں اور اہداف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اور بلوچستان کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ہم نے اب تک بے شمار داستانیں سنی ہیں، مگر جو حل ہمارے پاس ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم ان سے بات نہیں سمجھا پائے ہیں، بلکہ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونے چاہئیں اور بلوچستان کو غلامی کی حالت میں رکھنا ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان کا مسئلہ صرف ایک لفظی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک پیچیدہ اور متعدد مسائل کا مجموعہ بن چکا ہے۔ پہلے بلوچستان کے لوگوں کو ترقی، بنیادی سہولتیں اور آئینی حقوق چاہیے تھے، مگر اب ان مسائل میں آئینی، غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی کمیابی بھی شامل ہو گئی ہے بلوچستان میں مسائل کا انبار کھڑا ہو چکا ہے اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ٹی وی اینکر صحافی بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یا تو اس پر کیسز بنائے جاتے ہیں، یا اسے راتوں رات اٹھا لیا جاتا ہے، یا جس چینل میں وہ کام کرتا ہے، اس سے نکال دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک صحافی کو بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی سزا ملتی ہے، تو یہ حکمران اس بات کا پتا لگانے کے باوجود کہ بلوچستان میں صورتحال کتنی سنگین ہے، پھر بھی صرف اپنے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں سی پیک کا منصوبہ بلوچستان کے لیے فائدہ مند نہیں ثابت ہوا، اور دیگر صوبوں میں جہاں موٹرویز اور دیگر ترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں، بلوچستان میں سی پیک کے نام پر صرف کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کی جا رہی ہے دوسرے صوبوں میں جہاں زیر زمین ٹرینیں، پاور پروجیکٹس اور دیگر ترقیاتی منصوبے بن رہے ہیں، وہ بلوچستان میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ کی وجہ سے دیگر صوبوں کے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن بلوچستان کے لوگ اس سے محروم ہیں۔ گوادر میں ابھی تک بجلی کی کمی ہے اور بجلی ایران سے آ رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے تحت کئی پاور پروجیکٹس منظور ہوئے تھے، جن میں سے ایک گوادر میں اور دوسرا گڈانی میں تھا، جس کا سنگ بنیاد خود وزیر اعظم نے رکھا تھا۔ لیکن یہ منصوبے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے، اور ان منصوبوں کا کوئی فائدہ بلوچستان کو نہیں پہنچا۔

مینگل نے کہا کہ سی پیک کی بدولت دوسرے صوبے مالا مال ہو گئے ہیں، جبکہ بلوچستان کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔سی پیک کے منصوبوں سے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو ترقی اور روزگار کے مواقع ملے ہیں، لیکن بلوچستان کے عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا پاکستان میں نافذ کیے جانے والے قوانین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قوانین صرف بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان میں نافذ کیے جا رہے ہیں، اور ان کا مقصد عوام کی آزادی کو سلب کرنا ہے۔

انہوں نے ماضی کے مارشل لاء جیسے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دور کا ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ حکمرانوں کا رویہ ان مارشل لا کے دوروں سے مشابہت رکھتا ہے یہ جو قوانین بنائے جا رہے ہیں، وہ کسی بھی جمہوری ملک میں قابل قبول نہیں ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں کسی کو اظہار رائے کی آزادی سے روکا نہیں جا سکتا، اور یہاں تک کہ میڈیا پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں ایسا ماحول ہٹلر یا چنگیز خان کے دور کی یاد دلاتا ہے، اور ان حکمرانوں نے شاید برلن میں جا کر ہٹلر کی قبر پر سجدہ ریز ہو کر یہ عہد کیا ہو کہ وہ اس ملک کو اسی راستے پر لے کر جائیں گے۔ ان کے مطابق، یہ حکمران اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اتحاد صرف نام کا نہیں بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی خاص سیاسی جماعت کا نام نہیں لے رہے، مگر جو قوانین بنائے جا رہے ہیں، چاہے وہ اسمبلی کے ذریعے ہوں یا موجودہ حکومتوں کی طرف سے، ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں گے یہ حکومتی جماعتیں بلوچستان کے حقیقی مسائل پر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دے رہیں اور ان سے توقعات غیر حقیقی ہیں میں نے اپنا استعفیٰ پیش کردہاہے۔ منظور کرنا نہ کرنا ان کا کام ہے۔ میں نے استعفیٰ میڈیا کے سامنے پیش کیا اور سیکریٹری اسمبلی کو دید یا اسپیکر صاحب تو غائب تھے اور سیکریٹری کے ذریعے استعفیٰ پیش کیا گیا۔ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ گواہ ساتھ لے کر آنا چاہیے، لیکن ان کے مطابق یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ اس طریقے کو اختیار کریں یا نہ کریں۔ پارلیمانی سیاست میں، چاہے وہ صوبائی اسمبلی ہو، بلدیاتی انتخابات ہوں یا قومی اسمبلی، انہوں نے سب کو آزمایا ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ یہ اسمبلیاں بلوچستان کے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ اسمبلیوں میں بھی اس بات کا امکان کم ہے کہ بلوچستان کے مسائل حل ہوں گے۔ وہ پارٹی کے قومی کونسل کے اجلاس میں اس پر فیصلہ کریں گے کہ کیا وہ پارلیمانی سیاست میں بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے یا نہیں۔وزیراعلیٰ صاحب اسمبلی کی خستہ حال عمارتوں کی مرمت کے حوالے سے قرارداد پیش کر رہے ہیں، لیکن ان کے مطابق اصل مسئلہ عمارتوں کی حالت نہیں، بلکہ نظام کی خرابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے آپ عمارتوں کو جتنا بھی خوبصورت بنا لیں، جب تک نظام خراب ہے، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قسم کی تبدیلیاں صرف سیاسی فائدہ کے لیے کی جاتی ہیں، جس سے بعض سیاستدانوں کی مراعات بڑھتی ہیں سردار اختر مینگل نے بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو بلوچستان کے جدوجہد میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے وہ لوگ جمہوری طریقے سے احتجاج کر رہے ہوں یا سڑکوں پر آ کر مزاحمت کر رہے ہوں، یا پہاڑوں میں ہم صرف ان کے لئے دعاگو ہیں۔

بلوچستان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے ہر گاؤں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، خاص طور پر صحت، روزگار، تعلیم، اور صاف پانی کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان مسائل کا حل وہ شخص یا سیاسی پارٹی نہیں کرے گی جس کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہو، تب تک کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی ایسے افراد جو کاروباری ذہنیت کے حامل ہیں اور انتخابات میں پیسہ لگا کر کامیاب ہوتے ہیں، وہ عوامی مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ان کے مطابق، اگر ان سرمایہ کاروں نے اپنے پیسوں کو کسی گاؤں یا شہر میں لگایا ہوتا، تو وہاں بنیادی سہولتیں جیسے اسکول، صحت کے مراکز، اور پینے کے پانی کی فراہمی ممکن ہو سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کاروباری لوگ عوامی مسائل کے حل کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور اس لیے وہ کبھی بھی بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں حل کر پائیں گے ۔