سانحہ جعفرایکسپریس اورمیڈیا حکمت عملی کی ناکامی! – عصمت اللہ نیازی

838

سانحہ جعفرایکسپریس اورمیڈیا حکمت عملی کی ناکامی!

تحریر: عصمت اللہ نیازی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے درہ بولان میں بلوچ لبریشن آرمی نامی علیحدگی پسند تنظیم کی طرف سے کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے کا گھناؤنا اور بدترین لیکن پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ دنیا بھر میں میڈیا کی ہیڈ لائن بن گیا اور کئی روز گزرنے کے باوجود اب تک میڈیا میں یہ واقعہ زیر بحث ہے۔ ٹرین میں مبینہ طور مسافروں کے علاوہ بڑی تعداد میں سیکورٹی اہلکار اور افسران بھی شامل تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے میڈیا کو بریفنگ میں فراہم کی گئی معلومات کے مطابق ٹرین میں کل 380 مسافر سوار تھے. بی بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلی بلوچستان نے بتایا کہ اس ٹرین میں سفر کے لیے 425 مسافروں کو ٹکٹ جاری ہوئے تھے۔ بازیاب کروائے گئے اور ہلاک ہونے والے مسافروں کی کُل تعداد 380 بنتی ہے جس کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ باقی 45 مسافر کہاں ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ جو مغویوں کی تعداد میں فرق آ رہا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کچھ لوگوں نے سفر ہی نہیں کیا ہو، کچھ لوگوں نے اگلے سٹیشنوں سے بیٹھنا ہو۔ امکانات یہ بھی ہیں کہ ایک، دو لوگ جو بھاگے تھے وہ بھٹک بھی گئے ہوں یا دوبارہ اُن (حملہ آوروں) کے ہاتھ لگ گئے ہوں۔

دوسری طرف عالمی میڈیا اور نجی ڈیجیٹل میڈیا صورتحال کا مختلف نقشہ پیش کر رہا ہے اور سوال اٹھا رہا ہے کہ جائے حادثہ پر 200 تابوت کس مقصد کے لئے بھیجے گئے. خیر الله کرے کہ یہ تمام خدشات اور تبصرے اور سوالات غلط ثابت ہوں اور سرکاری طور پر دئیے گئے اعداد شمار ہی سچ ثابت ہوں.

لیکن ایک سوال جو بار بار اٹھتا رہے گا اور مسند اقتدار پر آج بیٹھے لوگوں کو ستاتا رہے گا، وہ یہ کہ لگ بھگ 30 گھنٹوں تک مین سٹریم میڈیا کو اصل صورتحال بتانے سے کیوں روکے رکھا گیا ، سرکاری طور پر یا آئی ایس پی آر کی طرف سے اس دوران مختصر ہی سہی معلومات کیوں فراہم نہیں کی گیں ؟ مبینہ طور پر جن اینکرز نے جعفر ایکسپریس کے اغوا پر پروگرام کئے انہیں اہم معلومات پر بات کرنے سے باز رہنے کی ہدایات موصول ہوئیں اور یہاں تک بھی اطلاعات ہیں کہ بعض کو تنبہیہ بھی کی گئی۔ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی طویل آمرانہ حکومتیں دیکھیں لیکن منتخب ادوار میں میڈیا کو آج جس پیمانے پر سینسر شپ اور پریس ایڈوائسز کا سامنا ہے وہ شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔

آخر وہ کیا محرکات تھے کہ جس نے میڈیا پر پابندی لگانے پر مجبور کئے رکھا اور تمام چینلز پر “ذرائع کے مطابق” ایک ہی خبر چلتی رہی۔ جس سے پیدا ہونے والے معلوماتی خلا کا صرف اور صرف بھارتی میڈیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نہ صرف پروپیگنڈہ کیا بلکہ ایسی ایسی ویڈیوز بھی ٹی وی سکرین پر چلائیں جس کا اس واقعہ سے دور دور تعلق واسطہ نہیں تھا۔

سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر پی ٹی آئی جو آج کی صورتحال میں اپنے آپکو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انتقامی کاروائیوں سے متاثرہ جماعت سمجھتی ہے، اُسکی فیک نیوز بریگیڈ ، وہ یو ٹیوبرز اور اینکر جو ملک سے باہر بیٹھ کر فیک نیوز کو فروغ دے رہے ہیں اور ہر اُس خبر کو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے ملک کی “نیک نامی” میں مزید اضافہ ہو اور انکے سوشل میڈیا پر فالورز لائیکس اور ویوز بڑھیں. پھر عالمی میڈیا نے باخبر ذرائع کے سیغے کا سہارا لیا بلکہ بی بی سی نے تو فوجی ذرائع سے یہاں تک بتا دیا کہ ٹرین میں سو کے قریب فوجی بھی سوار ہیں . جب فوجی افسر بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتنی اہم معلومات فراہم کر سکتا ہے تو فوج کا میڈیا ونگ 30 گھنٹوں تک کیوں خاموش رہا ؟ جس نے صرف اور صرف فیک نیوز اور منفی پرپیگنڈہ کو ہوا دی.

یہ پہلا موقع نہیں کہ ایمر جنسی اور ٹرین اغوا یا جنگ جیسی صورتحال میں پاکستان کو عالمی منظر پر اس لئے پروپیگنڈا اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ میڈیا کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کی بجائے سینسر شپ لگائی گئی۔ ایسا ہی 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہوا جب مشرقی پاکستان میں زمینی حقائق کچھ تھے لیکن قومی اور عالمی میڈیا کو چونکہ اصل صورتحال سے دور رکھا گیا تو ہم جنگ اور میڈیا کے فرنٹ دونوں پر ہارتے دیکھے گئے . پھر 1999 کی کارگل کی جنگ ہوئی تو بھارت میں کئی ایسے نجی ٹی وی چینل اپنی نشریات بھرپور طریقے سے چلا رہے تھے جو بھارت کے علاوہ پاکستان میں بھی مقبول تھے انہوں نے فرنٹ لائن سے کوریج کی جب کہ پاکستان میں واحد ٹی وی چینل پی ٹی وی میں وہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ شمال میں برفیلی چوٹیوں پر لڑی جانے والی جنگ کی موثر کوریج کر سکے۔

لیکن ابھی چند سال پہلے بالا کوٹ میں بھارت کے حملے اور پاک فضائیہ کی طرف سے بھارتی پائلٹ ابھینندن کے جہاز کو گرانے اور اسے زندہ گرفتار کرنے اور پھر بھارتی فضائیہ کی طرف سے کامیاب آپریشن کے پروپیگنڈہ کے مقابلے کی کہانی مختلف ہے۔ جس میں بھارت کے پروپیگنڈے اور میڈیا حکمت عملی کو پاکستان نے بہت کامیابی سے ناکام بنایا اور پاکستان نے بھارت کو فروری 2019ء میں میڈیا سمیت تین روزہ جنگ میں شکستِ سے دوچار کیا۔

اسکی بنیادی وجہ یہ رہی کہ بھارتی فضائی حملے کے بعد میڈیا اور ٹی وی چینلز کی ٹیموں کو فوری طور پر بالا کوٹ میں اس مقام پر پہنچایا گیا جہاں بھارت نے دعوی کیا تھا کہ اسکے فضائی حملے میں دہشت گردوں کو تربیت دینے کے ایک کیمپ کو تباہ کر دیا ہے. میڈیا نے فوری کوریج کی اور ثابت کیا کہ وہاں نہ تو کوئی کیمپ تھا نہ کوئی حملہ ہوا بلکہ ایک کوا مرا ہوا ملا۔ جنوری 2022 میں جاری ایک تحقیقاتی پورٹ نے خبردار کیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے فروری 2019 کے بالاکوٹ فضائی حملے کو غلط طریقے سے پیش کرنے سے بھارت کی خطے میں غیر معمولی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت پر سوالات اٹھ گئے ہیں

مصنف اور یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پیس کے جنوبی ایشیا کے لیے سینئر مشیر ڈینیئل مارکی نے یہ پیپر نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ کے لیے لکھا ہے اور بالا کوٹ فضائی حملے کا حوالہ دیتے ہوئے اسکا کہنا تھا کہ بالاکوٹ فضائی حملہ، اس کے بعد جھڑپوں اور بھارت کے پاکستان کے اندر دہشت گرد کیمپ تباہ کرنے اور پاکستانی ’ایف 16‘ لڑاکا طیارہ گرانے کے جھوٹے دعوے امریکا میں بھارت کی ساکھ اور اس کی خطے کے غیر معمولی حالات کے دوران مواصلات کی حکمت عملی سے متعلق کئی سوالات کو جنم دے چکے ہیں۔ پاکستان کا بیانیہ بالاکوٹ کے حوالے سے اس لئے کامیاب ہوا کیوں کہ پاکستانی حکام نے فوری طور پر میڈیا کو استعمال کیا اور بھارتی پروپیگنڈا کو ناکام بنا دیا۔

بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور کے میڈیا اور لبرل آرٹس کے ڈاکٹر فاروق سلہریا کہتے ہیں کہ ہر قسم کے حالات میں سچ بہترین حکمت عملی ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ ٹروتھ کے اس دور میں بھی سچ ہی ہر قسم کے پروپیگنڈا کا بہترین توڑ ہوتا ہے۔

“جنگ کی صورت میں جھوٹ ” انگریزی کتاب کے مصنف پونسونبے لکھتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں جھوٹ اور پروپیگنڈہ ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا” لیکن آج کی صورتحال میں یہ نقصان دہ ہے۔ مغربی محقق مائیکل شیلڈن جو تھنک ٹینک انٹلانٹک کونسل کے لئے کام کرتے ہیں لکھتے ہیں کہ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں بنیادی حقائق میں جھوٹ سےالجھاؤ پیدا کرنا وہ بھی کسی ہنگامی صورتحال میں یہ کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا. دوسری طرف جعفر ایکسپریس کے اغوا کار براہ راست بھارتی ٹی وی چینلز سے رابطے میں تھے اور معلومات فراہم کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پر پریس ریلیز جاری کر چکے تھے۔ آج کی کسی بھی ہنگامی یا جنگ کی صورتحال میں میڈیا اور موثر میڈیا حکمت عملی، جنگ کا اہم ترین ستون سمجھی جاتی ہے۔

میڈیا کی موثر کوریج آج کے دور میں چاہے وہ جنگ ہو یا ہوائی یا بحری جہازوں یا پھر ٹرینوں کا اغوا اور مغویوں کی صورتحال، اسی طرح بڑے حادثات یا بم اور خود کش حملوں کی صورت حال میں حکام اور عوام کے درمیان بروقت کوریج پُل کا کردرا ادا کرتی ہے اور مخالف قوتوں کے منفی پروپگنڈا کا بھرپور مقابلہ صرف میڈیا کے بروقت استعمال سے ہی کیا جا سکتا ہے، جو جعفر ایکسپریس کے اغوا کے دوران نہیں دیکھا گیا۔ ٹرین کے اغوا کے پانچ روز بعد میڈیا ٹیموں کو جائے وقوعہ پر ضرور لیجایا گیا لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

اس سارے واقعے میں ایک چیز واضح ہو گئی کہ اطلاعات تک رسائی اور حکام کی طرف سے انفارمیشن کی فراہمی میں وسیع خلا موجود تھا جس کا فائدہ نہ صرف علیحدگی پسند تنظیم اور بھارتی میڈیا نے اٹھایا بلکہ پاکستان میں مخالف سیاسی قوتوں، ملک سے باہر بیٹھے سوشل میڈیا اینکروں اور یو ٹیوبرزنے اس ایشو پر خوب کھیلا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔