زگرین، تم کدھر ہو؟ – دینار بلوچ

71

زگرین، تم کدھر ہو؟

تحریر: دینار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بارش تیز ہونے کو تھی، جھگ کی چھت سے ٹکرا کر بارش کی بوندوں کی ٹپک ٹپک اور قلات کی یخ بستہ تیز ہوائیں جیسے باہر موجود ہر چیزانسان، حیوان سب کو جما دیا ہوگا۔ ایک گشی ٹیم نے یہ خبر لا کر جیسے ایک بم میرے سر پر پھوڑ دیا:
“سنگت زگرین اب ہم میں نہیں رہے۔”
یہ خبر سن کر جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔

سنگت زگرین کی قومی جدوجہد میں نمایاں کردار میرے خیالوں میں گھومنے لگا… پچھلے سال کی ہی تو بات ہے، اسی جھگ میں، اسی بارش کے موسم میں جب میں درد کی شدت سے نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا… گولی دو دن سے میرے پاؤں کے اندر موجود تھی، گو کہ میں کافی درد کش گولیاں کھا چکا تھا، لیکن افاقہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ ڈر تھا کہ زگرین کے پہنچنے تک میرا پاؤں خراب نہ ہو جائے۔ انہی خیالات میں گم تھا کہ اتنے میں زگرین جھگ کے اندر داخل ہوا، ہمیں سلام کرنے کے بعد اپنے دو دوستوں کو، جو اس کے ہمراہ تھے، جلدی سے اندر آنے کا کہہ کر چادر ہٹا کر اپنی بندوق نیچے رکھ کر دوزانوں بیٹھ گیا۔

“دیدگ… انت حالے نا؟ سُم دسکان تہہ ٹی ۓ؟”
“اب کیسی ہے طبیعت؟ گولی ابھی تک اندر ہی ہے؟”

“پاؤں میں شدید درد ہے، ڈر ہے کہ زیادہ دیر گولی پاؤں کے اندر رہنے سے جراثیم نہ پیدا ہو جائیں، جس سے پاؤں کو نقصان نہ پہنچے…”
میری بات سن کر وہ کچھ لمحے زمین پر نظریں گاڑ کر کچھ سوچنے لگا، پھر کہنے لگا:
“ایک انجیکشن لگا لیتے ہیں، درد کی شدت میں کافی کمی آئے گی، اور صبح دن کی روشنی میں گولی نکال لیں گے۔”

زگرین نے چائے دانی کی طرف دیکھا، تو میرو بھی سمجھ گیا اور چائے بنانے لپکا۔ چند لمحے بعد جھگ چائے کی خوشبو سے مہکنے لگا۔ زگرین، میرو کو چائے بناتے دیکھ کر خاموشی سے جھگ میں موجود جائے نماز اٹھا کر زمین پر بچھا دیتا ہے اور اپنے کلاشنکوف کو ابتدائی طبی امداد دینے لگا۔ تمام سامان کو آگ کے نزدیک پھیلا کر، کلاشنکوف کو بھی مکمل کھول کر اس کے پرزے خشک ہونے کے لیے آگ کے سامنے رکھ دیے۔

اسی اثنا میں میرو بھی چائے تیار کر چکا تھا۔ چائے پیتے ہوئے زگرین اپنی کلاشنکوف کی دیکھ بھال جاری رکھے ہوئے تھا۔
“عطا،” وہ اپنے ایک دوست کی طرف متوجہ ہوا، “پستول بھی مجھے پکڑا دو۔”
عطا نے خاموشی سے Glock 19 زگرین کی طرف بڑھا دیا۔ زگرین نے پستول کو بھی کلاشنکوف کی طرح پرزہ پرزہ کھول کر ایک کپڑے سے خشک کرنے میں مصروف ہوگیا، دونوں ہتھیاروں کی میگزینوں سے گولیاں نکال کر انہیں بھی الگ رکھ دیا۔

“چائے تیار ہونے کو ہے،” میرو نے زگرین سے کہا، “خشک روٹیاں پڑی ہیں، نکال لاؤں؟ تم لوگوں نے صبح سے کھانا بھی نہیں کھایا ہوگا۔”
میرو کی بات سن کر زگرین زیر لب مسکرا کر کہنے لگا:
“سنگت، کھانا تو ہم نے واقعی نہیں کھایا، لیکن روٹیاں رات کے لیے رکھ لو، ابھی بھوک نہیں ہے۔”
پھر آہستہ سے کہنے لگا:
“تم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دیوہیکل کالے پہاڑ ہمیں کبھی بھوکا واپس نہیں بھیجتے۔ یہ پہاڑ وطن زادوں کا ایسے خیال رکھتے ہیں جیسے ایک ماں اپنی اولاد کا۔”

یقیناً زگرین اور اس کے دوست موسمی پھل (پہاڑی میوہ) کھا کر اپنی بھوک مٹا چکے تھے۔

پورے وقت زگرین کافی بے چین نظر آ رہا تھا۔ اس کی توجہ اکثر واکی ٹاکی پر تھی، جسے ہر چند لمحے بعد آن کرتا اور مطلوبہ چینل سے صرف “شاں شاں” کی آواز سن کر واکی ٹاکی آف کر دیتا۔ یقینی طور پر بیٹری میں چارج کم ہونے کی وجہ سے وہ اسے بار بار آف کر رہا تھا۔

چند لمحے خاموشی میں گزارنے کے بعد وہ ٹیک لگا کر انگاروں سے اٹھتی چنگاریوں کو دیکھنے لگا۔ پھر اچانک جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو، اس نے جلدی سے واکی ٹاکی دوبارہ آن کر لیا۔ چند لمحوں کی “شاں شاں” کے بعد ایک آواز ابھری:

“کمانڈر، سنگت ہوش میں آ چکا ہے، ابھی اس کی طبیعت کافی ٹھیک ہے۔”

اگلے لمحے زگرین نے بٹن دبایا اور کہا:
“صحیح! درد کش سیلہ اس خلبو تہ شام انا تکلیف مف تہ۔”
“ٹھیک ہے! درد والی انجیکشن لگا دینا، تاکہ رات کو تکلیف نہ ہو۔”

“صحیح ۓ…” دوسری جانب سے جواب پا کر وہ مطمئن ہوگیا۔

“سنگت، کسی دوست کو گولی لگی ہے کیا؟ اور آپ ہمیں بتا کیوں نہیں رہے؟ کون ہے اور اسے گولی کیسے لگی؟”

“نہیں دیدگ، گولی تو نہیں لگی، لیکن گشت کے دوران ایک ساتھی بارش کی وجہ سے پھسل گیا۔ بدقسمتی سے اس کا توازن بگڑ گیا، اور آگے ایک گہری کھائی تھی…”

جب میں دوپہر کو اٹھا تو دیکھا کہ میرے ساتھ صرف میرو ہے۔ پوچھنے پر مجھے پتا چلا کہ زگرین اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس ایک ضروری کام سے جا چکا ہے۔

میرو نے میرے لیے ایک بار پھر چائے بنائی اور روٹی کے ساتھ مجھے دی۔ میں نے کھانے کے بعد اپنے زخم پر نظر دوڑائی، پٹی پر خون کے کچھ دھبے نمایاں ہو چکے تھے، مگر درد کی شدت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ زگرین کے جانے کے بعد جھگ میں خاموشی چھا گئی تھی، صرف باہر چلتی تیز ہوا کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔

شام ڈھلنے لگی تھی۔ میں جھگ کے دروازے پر بیٹھا، دور پہاڑوں پر پڑتی سورج کی آخری کرنوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہی پہاڑ جو زگرین جیسے بہت سے سنگتوں کے رازوں کے امین تھے۔ میں سوچنے لگا کہ زگرین کہاں ہوگا؟ وہ اب کس مہم پر نکلا ہوگا؟

رات کا اندھیرا چھا چکا تھا، میں بستر پر لیٹا مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ زگرین کی باتیں، اس کی مسکراہٹ، اس کا عزم سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ جب وہ واپس آئے گا تو اس سے بہت سی باتیں کرنی ہیں، اس سے کہنا ہے کہ وہ ذرا اپنا بھی خیال رکھا کرے۔ مگر میں یہ سب زگرین سے کبھی نہیں کہہ پایا، کیونکہ وہ پھر کبھی واپس نہیں آیا۔۔۔

سنگت زگرین، تم کدھر ہو؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔