ریاستی جبر اور سیاسی مزاحمت
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان میں پاکستان نے ایک وفاقی ریاست کے بجائے طاقت کے زور پر اپنی حاکمیت مسلط کرنے کا رویہ برقرار رکھا ہے۔ مزاحمتی عوامی سیاست کے علمبردار پہلے ہی ریاستی اداروں کے زیرِ عتاب تھے، اور اب پاکستان کی وفاقی سیاست سے وابستہ جماعتوں پر بھی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ ریاست کے پالیسی ساز بلوچستان کے معروضی حقائق سے لاعلم ہیں، اسی لیے وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ بلوچ خواتین کو پابندِ سلاسل کرکے بلوچ عوام کو پاکستان کے وفاق کی سیاست میں شامل رکھا جا سکتا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، بیبو بلوچ، بیبگر بلوچ سمیت سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا راستہ روک کر ریاست اپنی سخت گیر پالیسی کا اظہار کر رہی ہے۔ تاہم بلوچستان میں پاکستان کا رویہ روزِ اول سے ایک سخت گیر ریاست جیسا ہی رہا ہے۔
پچاس کی دہائی کے آخر میں نواب نوروز خان کو قرآن کا واسطہ دے کر مذاکرات پر آمادہ کیا گیا، لیکن بعد میں انہیں پابندِ سلاسل کر دیا گیا اور ان کے بیٹوں کو جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ 1973 میں نیشنل عوامی پارٹی کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے مری اور مینگل قبائل پر شب خون مارا گیا۔ اکیسویں صدی میں گزشتہ بیس سالوں سے جبری گمشدگیوں اور حراستی قتل کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دیگر اکائیوں کو شاید سخت ریاست کے تصور کا سامنا نہ ہو، لیکن بلوچ قوم ستر سالوں سے ریاست کے اسی رویے کا سامنا کر رہی ہے۔
بلوچ خواتین کو احتجاج کے حق سے محروم کر کے انہیں پابندِ سلاسل کرنا اور سردار اختر مینگل کے دھرنے پر خودکش حملے کروانے جیسی کارروائیوں سے اگر ریاست کے مقتدر حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ اپنی حقِ حاکمیت کی جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں گے، تو یہ ان کی بلوچ سیاسی تاریخ سے لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔
بلوچ قومی سیاست ریاستی سختیوں کے باوجود جاری رہے گی، لیکن پاکستان کے وفاق سے وابستہ جماعتوں پر قدغنیں لگانے سے ریاست کی جڑیں بلوچستان میں مزید کمزور ہوں گی، اور یہ تصور مزید پختہ ہوگا کہ پاکستان میں سیاست کے ذریعے قومی حقوق حاصل کرنا ممکن نہیں۔