بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ماضی کی طرح اس بار بھی کہانی وہی ہے، کردار وہی مظلوم اور ستم زدہ بلوچ اور بلوچ طلباء ہیں، اب کی بار بھی ظلم ڈھانے والے ریاستی سیکیورٹی نافذ کرنے والے برائے نام ادارہ ہیں جن کو بار بار یہی خطرہ رہتا ہے کہ ملکی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ بلوچ طلباء ہیں۔ ہمارا یہاں آنے کا مقصد اپنی سچائی، حقیقت اور حالاتِ حاضرہ کو آپ کے سامنے بیان کرناہے جو مین اسٹریم میڈیا کبھی بھی نشر نہیں کرتی اور نہ تصویر کا دوسرا رخ آپ تک پہنچنے دیتی ہے۔ وہ صرف ریاستی اداروں کی جانب سے دیے گئے بیانیے اور پروپگینڈے کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ لیکن کسی میں بھی اتنی ہمت اور سقت نہیں کی کہ کبھی بلوچ کی بھی سنیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس متعصب رویے کا بلوچ دہائیوں سے سامنا کررہے ہیں جبکہ بلوچ طلباء کی اس گٹھن زدہ کیفیت کو بیان کرنے کیلئے سب نے مستقل چپ سادھی ہوئی ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر باشعور اور سنجیدہ میڈیا پرسنز، صحافی حضرات، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک، اور سوشل میڈیا سمیت تمام میڈیا ہاؤسز کو انکی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ ہماری دوہائی سنیں اور اسے پوری دنیا تک پنچائیں۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا آج یہاں آنے کا مقصد واضح ہے کہ بلوچ کو جینے کا حق دیا جائے، ہمیں اپنی زمین پر امن اور سکون سے رہنے دیا جائے۔ ہمارے لیے ہمارے اپنے وطن اور آباؤاجداد کی سرزمین پر گھیراؤ اس قدر تنگ کر دیا گیا ہے کہ اب سانس تک لینا محال ہے ۔ بدقسمتی سے بلوچستان کئی دہائیوں سے ایک مستقل جنگ کی لپیٹ میں ہے جہاں بمشکل ایسا دن گزرتا ہے کہ کسی ماں کے لال کی لاش نہ گرے، ”نا معلوم“ افراد کے ہاتھوں کسی کا قتل نہ ہو یا ٹارگٹ کلنگ نہ ہو،کبھی مسخ شدہ لاشیں اجتماعی قبروں اور سڑکوں سے برآمد ہوتی ہیں تو کبھی ہسپتالوں میں جسمانی ٹارچر شدہ لاشیں متی ہیں – مزید برآں ہم ریاستی ظلم اور زیادتی کا ہر روز سامنا کر رہے ہیں جہاں فورسز برائے نام امن کے نام پر بلوچ پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اور یہ ادارے اپنی خودساختہ تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ سمیت پورے بلوچستان میں خوف و وحشت کا ماحول پیدا کر چکے ہیں۔ اور روزانہ کسی ماں کا پیارا انکے ہاتھوں بے قصور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یا سالوں تک ٹارچر سیل میں اذیت سہہ کر زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ یا کسی مسخ شدہ لاش کی صورت میں کسی بوری میں بندھے ویرانے میں پڑا ہوتا ہے یا بصورتِ دیگرے کسی نامعلوم کونے میں بنا کفن دفن اجتماعی قبروں میں دیگر بلوچ نوجوانوں کی ہڈیوں کے ساتھ بنا شناخت پائے جاتے ہیں ۔ زندگی میں سب سے بڑی نعمت خود زندگی ہی ہے، اگر یہ حق بھی چھین لیا جائے تو بچتا کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے بلوچستان میں لوگ زندگی کیلئے مزاحمت کررہے ہیں تاکہ غیر فطری موت کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔
طلبا نے کہاکہ بلوچستان ظلم اور جبر کا انوکھا عکس ہے جس کی نظیر شاید تاریخ میں کہیں ملتی ہو۔ اور وہاں اپنی ظلم کی رٹ کو قائم رکھنے کیلئے انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں، اور یہ بلوچ کو انسان بھی نہیں سمجھتے، اور انسانی حقوق کی بات کرنا تو دور کی بات ہے۔
گزشتہ ستر سالوں سے بلوچستان جنگ زدہ خطہ بنا ہوا ہے۔ تعلیمی ادارے ناپید اور معدوم ہیں، اگر بچے کھچے تعلیمی ادارے ہیں تو وہ بھی ملٹری کیمپ بنائے گئے ہیں۔ خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔ دوہزار کی دہائی کے بعد سے بلوچستان میں خون کی ہولی جاری ہے جہاں تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگ اس کی زد میں آرہے ہیں۔ صباء دشتیاری، زاہد آسکانی اور عبدلرزاق جیسے اساتذہ اور اذہان کو ہمیشہ خاموش کرا دیا گیا۔ تعلیمی ادارے ویران ہو گئے، طلباء سیاست سمیت لیڈران اور کارکنان کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ کریک ڈاون کا ایسا خطرناک لہر چلا کہ جس کی زد میں سب آئے اور سب سے زیادہ متاثر تعلیم یافتہ اور باشعور طبقہ ہوا۔ یوں تو پورے بلوچستان میں ظلم اور بربریت کا راج ہے لیکن ان حالات، جبری گمشدگی، “مارو پھینکو” کی پالیسی اور ٹارگٹ کلنگ سے بچنے کیلئے بلوچ طلباء نے ملک کے دیگر شہروں کا رخ کیا۔ نیز اس لیے کہ وہ پر امن طریقے سے اپنی درس و تدریس اور تعلیمی سرگرمی کو آگے لے جاسکیں۔ لیکن بد قسمتی کہ وہاں کا ظلم یہاں بھی ان کا پیچھا کرتا رہا اور وہ خوف کے سائے تلے اپنی تدریسی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لیکن یہاں بھی مختف حربوں اور طریقوں سے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پنجاب، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں درس و تدریس کے سلسلے میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخل بلوچ طلباء پر طرح طرح کے حربے آزمائے گئے تا کہ وہ حواس باختہ ہوکر پڑھائی کو خیر باد کہیں۔ لیکن بلوچ طلباء نے ہمیشہ ریاست کی ظالمانہ پالیسیوں اور متعصب نوآبادیاتی رویہ کا ڈٹ کر جمہوری طورپر مقابلہ کیا اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔ سخت حالات اور مصائب کبھی بھی ہمارا عزم، ہمت اور حوصلہ نہ توڑ سکے ہیں اور توڑ سکیں گے۔ پچاس دن لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ ہوں، پر امن احتجاج ہوں یا دیگر جمہوری طریقے، ہم ان تمام اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنا جمہوری و آئینی مقدمہ پر امن طریقے سے لڑتے رہے ہیں۔ ریاست ان تمام حربوں سے واضح لکیر کھینچنا چاہتا ہے کہ بلوچ تعلیم، علم، شعور، اکیڈمیا، سیاسی تربیت اور جدید مہارتوں سے رخ موڑ کر تعلیم و شعور سے دور رہیں لیکن ہم بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ ریاست ان پالیسیوں سے کیا چاہتا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں۔ شعور ہی قبضہ گیریت کی موت رہی ہے، اسی لیے دنیا میں تمام نوآبادیاتی طاقتوں کا سب سے بڑا ڈر شعور ہی ہے۔ لیکن شعور، علم اور زانت کا یہ سفر آخری دم تک جاری رہے گا اور نہ ہی ہم اپنے جمہوری، انسانی اور آئینی حقوق سے ایک انچ پیچھے ہٹیں گے۔
انہوں نے کہاکہ ریاستی اداروں کے ظلم سے ہم نہ بلوچستان میں محفوظ رہے اور نہ ہی ریاست کے کیپیٹل میں ہم محفوظ ہیں۔ وہاں اندھیروں میں دھکیل کر انہوں نے یہاں بھی وہی نوآبادیاتی تعلیم کش رویہ برقرار رکھا۔ تا کہ بلوچ طلباء مایوس ہوکر یہاں سے چلے جائیں۔ یونیورسٹی میں ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ حتی کہ ہراسمنٹ اور پروفالنگ کے بعد نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہراسمنٹ کے بعد اب طلباء جبری گمشدگی کے شکار بنائے جارہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال گزشتہ سالوں میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ایم فل اسکالر حفیظ بلوچ ہیں۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں ہاسٹل کے اندر سے چیف سیکیورٹی آفیسر کی مدد سے ایک بلوچ طالبعلم کی جبری گمشدگی بھی اسی ہراسمنٹ کی پالیسی کی کڑی ہے۔ لیکن ریاستی لاگو کردہ ظالمانہ پالیسی یہاں تک رکی نہیں بلکہ فیروز اور احمد خان بلوچ کی اب تک جبری گمشدگی اس کی سب سے بڑی اور واضح مثالیں ہیں۔ جن کی بازیابی کیلئے تمام آئینی راستے اختیار کیے گئے لیکن تاحال وہ ریاستی زندانوں میں قید ہیں۔ اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کس حال میں ہیں۔اس کے ساتھ پورے بلوچستان میں ظلم کا بازار گرم ہے۔ اسی رواں ہفتے پینتالیس سے زائد بلوچ اور بالخصوص بلوچ طلباء: جس کی مثال حالیہ سوشل ورک ڈپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل اشفاق بلوچ ہیں جن کو قلات سے جبراً گمشدہ کیا گیا اور وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ اس کے ساتھ اسلام آباد اور پنجاب میں بلوچ طلباء پر ریاستی سرویلینس ، ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ نمل یونیورسٹی کے دس طلباء کی جبری گمشدگی ہو یا اس سے پہلے کے گھناؤنے واقعات ہوں ان تمام کرتوں کے پس پردہ ایک واضح ریاستی مشینری اور پالیسی ہے جو اپنی تمام اشکال میں بلوچ دانش کش پالیسی ہے۔ جو منظم، مربوط اور عملی طورپر کارفرماں ہے۔
طلبا نے کہاکہ ان تمام واقعات و حالات پر مختصر اور طائرانہ نظر ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ریاستی ظلم کا سلسلہ کبھی بھی رکا نہیں ہے۔ بلکہ شدت کے ساتھ جاری ساری ہے۔ یہ ضرور زیر غور ہے کہ وقتاً فوقتاً اس نے شکلیں بدلی ہیں لیکن اپنا رویہ کبھی بھی نہیں بدلا۔ 24 جون 2024 کو خضدار سے انیس بلوچ کی جبری گمشدگی ، 11 مئی 2022 کو فیروز بلوچ کی راولپنڈی سے جبری گمشدگی اور4 مارچ 2025 کو اشفاق بلوچ کی قلات سے جبری گمشدگی اس کی واضح مثالیں ہیں، اور اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ریاستی ادارے نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے لاء ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم سجاد اسحاق کو گزشتہ شام آئی – 10 مرکز سے جبراً لاپتہ کردیا ہے اور یہ طالب علم پہلے بھی جبری گمشدگی کا شکار رہ چکا ہے۔ اس سے قبل ساجد اسحاق کو نامعلوم افراد نے فون کرکے خضدار میں ان کے گھر سے باہر بلا کر گرفتار کیا اور ایک کالی سرف گاڑی میں مسلح افراد نے انہیں خضدار کینٹ منتقل کر دیا۔ وہاں انہیں تشدد اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا پھر انجکشن لگا کر بے ہوش کرنے کے بعد ایک نالے میں پھینک دیا گیا جہاں وہاں پر وہ موجزاتی طور زندہ رہے۔ ذہنی اذیت کے باعث انہوں نے اپنی تعلیم چھوڑ دی تھی اور دو سال بعد دوبارہ آغاز کیا تو انہیں دوبارہ جبراً گمشدہ کر لیا گیا۔ یہ باعث شرم ہے کہ ظلم کا سایہ ہمیشہ بلوچ اور بلوچ طلباء پر منڈلاتا رہتا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ وہ بلوچ پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف بولیں، سب کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ انسانی تاریخ میں یہ ضرور لکھا جائے گا کہ بلوچ پر ظلم ہوتا رہا اور دنیا خاموش تماشائی بن کر اس کی نسل کشی پر لاتعلق بنی رہی۔ لیکن ہم اپنی قومی قوت و طاقت سے اس ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے۔ سیاسی، جمہوری، آئینی اور قانونی حدود پر پابند رہ کر
ہر فورم پر بلوچ طلباء کا مقدمہ لڑتے رہیں گے۔
پریس کانفرنس میں مزید کہاکہ ہم تمام مکاتب فکر کے لوگوں، انسانی حقوق کے کارکن، اداروں اور بین الاقوامی قوتوں، مظلوم اقوام اور طلباء سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم اور جبر کے خلاف کھڑے ہوکر عملی طورپر ہمارا ساتھ دیں تا کہ ہم اس جاری بربریت سے چھٹکارا پا سکیں۔ اگر آج دنیا خاموش رہی تو کل تاریخ انکو مجرم ٹہرائی گی۔ اخلاقی اور انسانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے وہ اس ظلم کے خلاف بلوچ اور طلباء کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنی عملی ہونے کا ثبوت دیں۔ اور ہم بلوچ قوم اور طلباء قوتوں سے یہ اپیل اور امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا بھرپور ساتھ دیں گے ۔
اس پریس کانفرنس کی توسط سے ہم سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں، یونیورسٹی انتظامیہ اور سول انتظامیہ کو یہ الٹیمیٹم دیتے ہیں کے جلد از جلد سجاد اسحاق کو بازیاب کیا جائے اگر ان کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم سخت سے سخت موقف اپنائیں گے اور عملی طورپر اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان بذریعہ میڈیا کریں گے۔ میڈیا اور صحافی حضرات سے ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری آواز کو پوری دنیا تک پہنچائیں گے۔ آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کے بعد ہم ملک گیر احتجاجی دھرنا اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔