بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ریاستی اداروں کیجانب سے بلوچ طلبہ کو مسلسل جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے ذریعے ان پر غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جس کے باعث تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ شدید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ جبری گمشدگی کے بعد بعض طلبہ کو کئی سالوں تک زندان میں قید رکھا جاتا ہے جبکہ کچھ کو مہینوں یا ہفتوں بعد رہا تو کر دیا جاتا ہے لیکن انہیں ذہنی اذیت دینے کے لیے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلوچ طلبہ کی ماورائے عدالت جبری گمشدگی، پروفائلنگ اور ہراسمنٹ جیسے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا تسلسل نہایت ہی تشویشناک ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے لاء ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم سجاد اسحاق کو ریاستی اداروں نے آئی-10 مرکز سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے جبکہ وہ پہلے بھی جبری گمشدگی کا شکار رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل ساجد اسحاق کو نامعلوم افراد نے فون کرکے خضدار میں ان کے گھر سے باہر بلا کر گرفتار کیا اور ایک کالی سرف گاڑی میں مسلح افراد نے انہیں کوئٹہ کینٹ منتقل کر دیا۔ وہاں انہیں تشدد اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا پھر انجکشن لگا کر بے ہوش کرنے کے بعد ایک نالے میں پھینک دیا گیا جہاں وہاں پر موجود افراد نے انہیں دیکھ کر اٹھایا۔ ذہنی اذیت کے باعث انہوں نے اپنی تعلیم چھوڑ دی تھی اور دو سال بعد دوبارہ آغاز کیا تو انہیں دوبارہ جبراً لاپتہ کر لیا گیا۔ اس سے قبل ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی کے طالبعلم فیروز بلوچ کو 11 مئی 2022 کو یونیورسٹی لائبریری جاتے ہوئے جبری لاپتہ کیا گیا اور فیروز بلوچ کے کلاس فیلو احمد خان بلوچ کو بھی بلوچستان کے علاقے تربت سے جبراً لاپتہ کیا گیا اور گذشتہ دو روز قبل پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حالیہ گریجویٹ طالبعلم اشفاق بلوچ کو بھی جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہے، جوکہ تاحال لاپتہ ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد متعلقہ اداروں کو 24 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیتی ہے کہ سجاد اسحاق کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اگر بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ نہ روکا گیا اور سجاد اسحاق سمیت دیگر بلوچ طلبہ کو رہا نہ کیا گیا تو بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد اپنا حتمی لائحہ عمل طے کریں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری ریاستی اداروں اور یونیورسٹی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔