ریاستی اثاثوں کی ہائی جیکنگ اور قیدیوں کے تبادلے: ایک تاریخی جائزہ
تحریر: دل مراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تعارف
ریاستی اثاثوں جیسے فوجی قافلوں، ٹرینوں، طیاروں اور دیگر وسائل پر کنٹرول یا قبضہ کرنا کسی بھی انقلابی جدوجہد کا ایک اہم ہتھیار اور حربہ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو دشمن ریاست پر دباؤ بڑھانے اور اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ خاص طور پر جبری طور پر قید کیے گئے افراد کی رہائی کے لیے یہ طریقہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے آج پاکستانی ٹرین کو ہدف بناکر کنٹرول حاصل کرنا اور جنگی قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش اسی حکمت عملی کا ایک نمایاں مثال ہے۔
اس مختصر مضمون میں اس نوعیت کے تاریخی واقعات کا جائزہ لیں گے جہاں ریاستی اثاثوں کو ہائی جیک یا قبضے میں لے کر قیدیوں کے تبادلے کیے گئے۔
تاریخی مثالیں
اسرائیل-فلسطین قیدیوں کے تبادلے
فلسطین-اسرائیل تنازعے میں قیدیوں کے تبادلے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ 2006 میں فلسطینی آزادی پسندوں نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو گرفتار لیا۔ پانچ سال کی قید کے بعد 2011 میں اسرائیل نے 1,027 فلسطینی قیدیوں کے بدلے گیلاد شالیت کو رہا کیا۔ ان میں کئی اہم فلسطینی رہنما بھی شامل تھے۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بھی کئی بار قیدیوں کا تبادلہ ہوا، جس میں اسرائیل نے اپنے فوجیوں کی لاشوں کے بدلے فلسطینی اور لبنانی قیدیوں کو آزاد کیا۔
بھارت اور کشمیر میں قیدیوں کے تبادلے
کشمیر میں بھی مسلح تنظیموں کی جانب سے بھارتی فوجیوں کو یرغمال بنا کر قیدیوں کی رہائی کی کوشش کی گئی۔ 1989 میں جے کے ایل ایف نے بھارتی وزیرِ داخلہ کے بیٹے روبیا سعید کو اغوا کیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان نے پانچ کشمیری قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ اور کندھار میں لینڈنگ
1999 میں بھارتی ایئر لائن فلائٹ IC-814 کو پاکستانی کی ریاستی مدد سے عسکریت پسندوں نے ہائی جیک کر کے افغانستان کے شہر کندھار میں اتارا، اس واقعے میں جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر سمیت تین عسکریت پسند بھارتی جیلوں سے رہا کیے گئے۔ ان افراد کو بعد میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور آج بھی انہیں ایک اثاثے کے طور پر دیکھتی ہے۔
آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) اور قیدیوں کی رہائی
آئرلینڈ کی آزادی کی تحریک میں بھی آئی آر اے نے برطانوی فوجیوں کو اغوا کرکے قیدیوں کے تبادلے کی کوشش کی۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں کئی بار برطانوی حکومت پر دباؤ ڈال کر قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی گئی۔
کولمبیا میں فارک (FARC) اور قیدیوں کے تبادلے
کولمبیا کی مسلح تنظیم فارک (FARC) نے کئی بار سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنا کر قیدیوں کے تبادلے کروائے۔ کولمبیا میں یہ عمل کئی دہائیوں تک جاری رہا اور کئی بار حکومت کو مجبور ہو کر عسکری تنظیموں کے مطالبات ماننے پڑے۔
بلوچستان کے تناظر میں
بلوچستان میں پاکستانی فورسز نے ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کر رکھا ہے، جن میں سے ایک بڑی تعداد کو خفیہ حراستی مراکز میں تشدد کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے، جن کی لاشیں پھینک ہمیں ملتی رہتی ہیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی پاکستانی فورسز پر حملہ ہوتا ہے تو پہلے سے ریاستی خفیہ اور غیر اعلانیہ زندانوں میں قید بلوچوں میں سے کچھ لوگوں کا نکال کرکے قتل کر دیا جاتا ہے جنہیں مقابلے کا نام دیا جاتا ہے، فوج کے اپنے گرفتار کرکے جبری لاپتہ کرنا یا انہیں قتل کرنے کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہے، ایسے بھی واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ فوج نے دوسروں اداروں کے تحویل سے لوگوں کو اٹھاکر قتل کر دیا ہے، بی این ایم کے مرکزی لیڈر کماش نصیر کمالان، صدیق عیدو اور یوسف نظر کو عدالتی پیشی کے لیے جاتے ہوئے پاکستانی فوج نے مقامی پولیس سے چھین کر کچھ دن جبری لاپتہ رکھنے کے بعد قتل کر دیا تھا گزشتہ سال کیچ میں بالاچ مولابخش کو سی ڈی ٹی نے دوران حراست قتل کرکے مقابلے کا نام دیا تھا، ایسے بے شمار کیس ملتے ہیں۔
بلوچ جنگ آزادی اور قیدیوں کے تبادلے کی پیش کش
سن دو ہزار تیرہ میں بلوچستان لبریشن فرنٹ نے جیونی میں پاکستانی کوسٹ گارڈ نامی فورس کے ایک کیمپ کو قبضہ کرکے دو فوجیوں کو حراست میں لیا، پاکستانی رویے کے برعکس بی ایل ایف نے انہیں جنگی قیدی کا درجہ دیا، جملہ حقوق فراہم کیے اور سزا پورے پر غیر مشروط پیشکش کی کہ تنظیم جنگی قیدیوں کو میڈیا کی موجودگی میں پاکستانی ریاست یا عالمی ریڈ کراس کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے لیکن پاکستان نے نہ یہ پیشکش قبول کی اور نہ ہی کسی عالمی تنظیم کو اس کی اجازت دی لیکن اس کے باوجود بی ایل ایف نے جنگی قوانین کا پاس رکھا اور قیدیوں کو محفوظ طریقے سے رہا کردیا۔
گزشتہ سال بی ایل اے نے ایک حاضر سروس فوجی افسر کو گرفتار کرکے قیدیوں کی تبادلے کی پیش کش کی لیکن پاکستان نے پیشکش پر غور کے بجائے فوری جوابی حملے کرکے اپنے افسر کو ہلاک کروایا۔
آج جنگی تاریخ کا اہم دن ہے، بلوچ مزاحمتی تنظیم نے ایک ریل گاڑی کو پٹڑی سے اتار کر اپنے کنٹرول میں لیا ہے جس میں سواریوں کی بڑی تعداد براہ راست ریاستی فورسز سے وابستہ ہیں۔ بی ایل اے نے پاکستان کو قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کی ہے، پاکستان کا واحد ردِعمل وہی پرانا گھسا پٹا جملہ ہے”کچل دیں گے”، جس کا مطلب ہمیشہ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل رہا ہے۔ آج بھی پاکستان کی رد عمل بعینہ یہی سامنا آ رہا ہے، تنظیم کہہ رہا ہے کہ اس کے سرمچار محفوظ ہیں اور پاکستانی بمباری کے جواب میں تیس تک پاکستانی فوجی ہلاک کیے جاچکے ہیں جبکہ پاکستان کے تمام ٹی وی چینل تنظیم کے جنگی قوانین کی پاسداری میں رہا کیے گئے خواتین و بچوں کی رہائی کو فوج کی بڑی کامیابی قرار دینے میں جُتے ہوئے ہیں، کسی بھی ذمہ دار افیشل نے تنظیم کے پیشکش پر غور کرنے کا اشارہ نہیں دیا ہے۔
پاکستان کا خوف واضح ہے کہ اس نے تنظیم کے پیشکش کو قبول کیا تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ بطور ریاست کو بلوچ مزاحمتی تنظییموں کو فریق ثانی قبول کر رہا ہے اور اس سے بلوچ تحریک آزادی کو عالمی سطح پر مزید قبولیت اور شہرت ملے گی۔
پاکستان ایک عسکری ریاست ہے جہاں ہر فیصلہ فوجی دماغوں میں جنم لیتا ہے اور ان کا پورا فلسفہ چند الفاظ میں قید ہے: ”مٹھی بھر عناصر ہیں”، ”کچل دیں گے”، ”صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے” اور “ریاست کا رٹ سختی سے نافذ ہے۔” یہی الفاظ اس ریاست کی ذہنی اور سیاسی ناکامی کے عکاس ہیں۔
جو ریاست جو اپنے ایک شہری کے لاش کے بدلے میں دوسرے فریق کے سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں کو رہا کرتے ہیں ان کی تایخ میں جڑیں کافی گہری ہیں جبکہ پاکستان کی تاریخ محض اتنی ہے کہ انگریز بابا نے اپنے مفادات کے لیے اسے سن سینتالیس میں تخلیق کیا۔لہٰذا ہمیں پاکستان سے ایسی توقعات وابستہ نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان جنگی قوانین کی پاسداری کرے گا یا اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت کے لیے ہمارے مطالبات پر غور کرے گا۔اگر ایسا کرے تو یہ نہ صرف بلوچ کی بڑی کامیابی ہوگی بلکہ پاکستان کے حصے میں بزور طاقت ہی سہی کم از کم ایک تو اچھا فیصلہ آئے گا۔
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی حالیہ کارروائی، جس میں پاکستانی فوجی ٹرین کو ہدف بنایا گیا، ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ بی ایل اے نے جنگی قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کی ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک جائز اقدام سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے کبھی بھی بلوچ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ مذاکرات نہیں کیے بلکہ ہمیشہ ان قیدیوں کو ماورائے عدالت قتل کر کے جھوٹا بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی۔
خدشات
آج پوری بلوچ قوم کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کی قید کا بدلہ عام بلوچ قیدیوں کی نسل کشی سے لے سکتا ہے۔ اس لیے بین الاقوامی اداروں پر دباؤ ڈالنا اور پاکستانی ریاست کو بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مجھے خدشہ ہے کہ پاکستانی اپنی ناکامی چھپانے یا بلوچ قوم کو اجتماعی سزا دینے کے لیے اپنے زندانوں سے ایک بڑی تعداد میں قیدیوں کو نکال کر انہیں جعلی مقابلے کا نام دے سکتا ہے، اس سے زیادہ پاکستان کر بھی کچھ نہیں سکتا، یہ کوئی نیا حربہ نہیں، جب بھی پاکستانی فورسز پر کوئی بڑا حملہ ہوتا ہے، تو وہ اپنی خفیہ زندانوں میں قید جبری لاپتہ بلوچوں میں سے کچھ کو چن کر قتل کر دیتی ہے اور پھر انہیں ‘مقابلے میں مارے گئے’ قرار دے کر اپنی ناکامی کا بدلہ لیتی ہے۔ جب مزاحمت کی حالیہ ابھار نے زور پکڑی تو اس کے ساتھ ہی پاکستان نے مختلف جیلوں اور حراستی مراکز سے سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ویران علاقوں میں پھینکیں۔ یہ خدشہ حقیقت پر مبنی ہے کہ اس بار بھی پاکستان ایسا کر سکتا ہے۔
اس ساہ کندن جیسے وقت میں ہمارے سوشل میڈیا کو ہائپ تخلیق کرنے کے بجائے اس سنجیدہ اور سنگین انسانی المیے کے امکان کو رد نہیں کرنا چاہئے بلکہ “سیو بلوچ پرزنر” #SaveBalochPrisoners جیسے ہیش ٹیگ چلا کر پاکستانی مظالم کو آشکارا کرنے کی ضرورت ہے۔
پس نوشت
ہمیں اپنے بنیادی مقصد یعنی بلوچ قومی آزادی کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جنگی حکمت عملیوں کی کامیابی کا اصل پیمانہ یہ نہیں کہ دشمن کو کتنا نقصان پہنچا، بلکہ یہ ہے کہ اپنی قومی تحریک کو کتنا مستحکم کیا گیا اور کس حد تک عالمی سطح پر اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کروایا گیا
ہماری ہر کاوش، ہر قدم، ہر جدوجہد، ہر اظہار، ہر لفظ، ہر تحریر کا بنیادی محور و مرکز آزادی ہونا چاہیے کیونکہ آزادی کے سامنے ہر دوسرا مسئلہ ثانوی ہے، چاہے وہ کتنا ہی ہولناک کیوں نہ ہو۔ یہ ادراک ہی ہمیں اندر سے ناقابلِ شکست بناتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔