حب بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج دھرنا آج تیسرے روز بھی جاری رہا جبکہ دھرنے کے باعث حب بھوانی کے قریب کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ مکمل طور پر بند ہوکر رہ گیا ہے۔
حب احتجاجی دھرنے میں مزید لاپتہ افراد کے لواحقین شریک ہورہے ہیں جبکہ یہ دھرنا لاپتہ دو بھائیوں یاسر اور جنید ولد عبدالحمید سرپرہ، ندیم بلوچ، نصیر بلوچ، احسان بلوچ اور امین بگٹی کے لواحقین کی جانب سے دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ظفر گشکوری کو 22 اکتوبر 2024 کو پاکستانی خفیہ اداروں اور فورسز کے اہلکاروں نے حب آلہ آباد ٹاؤن میں ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔
اہلِ خانہ کے مطابق ظفر کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے اٹھایا گیا اور چار ماہ گزر جانے کے باوجود اور ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔
دھرنے میں شریک ظفر گشکوری کی بوڑھی والدہ نے روتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کے بیٹے کو بازیاب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے صرف میرے بیٹے کی خبر دے دو، اگر ان پر کوئی الزام یا جرم ہے تو عدالتوں میں پیش کرکے سزا دیں وگرنہ انکے بیٹے کو رہا کیا جائے۔
حب چوکی پر جاری اس دھرنے میں جبری گمشدگیوں کے خلاف متحرک تنظیمیں اور سماجی کارکنان بھی شریک ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، اور حکومتی ادارے نہ صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اس ظالمانہ پالیسی میں خود بھی ملوث ہیں۔
مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ظفر گشکوری سمیت تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کے اس غیر قانونی سلسلے کو بند کیا جائے۔
حب چوکی دھرنے کے باعث گذشتہ تین روز سے کوئٹہ کراچی شاہراہ بند رہا جبکہ انتظامیہ کی جانب سے لواحقین سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔