بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی دھرنا گزشتہ تین دنوں سے حب بھوانی بائی پاس پر جاری ہے، جہاں چھ متاثرہ خاندان اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ ریاستی انتظامیہ نہ تو جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہو سکی ہے اور نہ ہی ریاستی فوج کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کو تیار ہے۔ اس کے برعکس، متاثرہ خاندانوں کو مسلسل مذاکرات کے نام پر دھمکایا اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج صبح، ریاستی فوج اور سادہ لباس میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مظاہرین پر تشدد کیا، جس میں مرد و خواتین کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، شرکاء پر گولیاں چلائی گئیں اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ اس دوران کئی افراد کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا، جن میں جبری گمشدگی کے شکار شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، راشد بلوچ کی بھتیجی مازیب بلوچ، اور ظفر گیشکوری کی ضعیف والدہ سمیت کئی خواتین شامل ہیں۔
ترجمان نے کہاکہ متاثرہ خاندان اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ لاشوں میں تبدیل ہونے یا ریاستی اداروں کے جعلی مقابلوں میں مارے جانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ شدید ریاستی جبر اور گرفتاریوں کے باوجود حب میں دھرنا بدستور جاری ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ اس جدوجہد میں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ کھڑی ہے اور پوری بلوچ قوم بلخصوص کراچی اور حب کے عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر حب دھرنے میں پہنچ جائے۔
انہوں نے کہاکہ ہم ریاست پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ نہتے مظاہرین پر تشدد اور بلوچ خواتین کی گرفتاریاں کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ہم حب انتظامیہ کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر تمام گرفتار شدگان، بشمول بلوچ خواتین، کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو ہم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری ریاست اور حب انتظامیہ پر عائد ہوگی۔