حالات و واقعات کے ٹریڈ مِل پر دوڑتا بلوچستان
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
حال ہی میں جب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چارج سنبھالا تو امریکی میڈیا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یکے بعد دیگرے صدارتی احکامات پر دستخط کیے گئے، روزانہ بے شمار خبریں آتی رہیں اور وائٹ ہاؤس سے بریفنگز دی جاتی رہیں۔ کئی صحافیوں کا کہنا تھا کہ اس تیزی کے ساتھ خبروں کی تہہ تک پہنچنا اور مثبت رپورٹنگ کرنا انتہائی مشکل ہو چکا تھا۔ اگر خبروں کی رفتار کی بات کی جائے تو بلوچستان سے بھی روزانہ کی بنیاد پر بجلی کی تیزی سے خبریں آتی ہیں، واقعات رونما ہوتے ہیں، جنہیں رپورٹ کرنا، ان پر تجزیہ کرنا اور حقائق کو تلاش کرنا ایک مشکل اور کٹھن عمل بنتا جا رہا ہے۔
اگر امریکہ، جہاں میڈیا ہاؤسز کے پاس بے پناہ وسائل، جدید ٹیکنالوجی اور افرادی قوت موجود ہے، وہاں کے صحافی یہ شکایت کرتے ہیں کہ خبروں کو رپورٹ کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے، تو سوچیے کہ ایک ایسا خطہ جہاں میڈیا بلیک آؤٹ ہو، آزادیٔ صحافت پر قدغن ہو، وہاں جب ایک ہی دن میں پانچ مختلف جگہوں سے درجنوں لوگ لاپتہ کیے جاتے ہوں، جہاں ویرانوں، ندیوں اور سڑکوں سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوتی ہوں، جہاں لوگ مختلف شاہراہیں بند کرکے مسلسل احتجاج کر رہے ہوں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہوں، وہاں حقیقت کی کھوج لگانا کتنا دشوار ہوگا؟
جہاں ریاستی ادارے اور ان کے پروردہ نام نہاد سیاستدان عوامی تحریکوں کی قیادت کرنے والوں کے خلاف جھوٹے اور غلیظ پروپیگنڈے کرتے ہوں، جہاں جنگی قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہوں، جہاں پہلے سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو جعلی مقابلوں میں شہید کرکے ان کی لاشوں کو مسلح مزاحمت کاروں کے طور پر پیش کیا جاتا ہو، جہاں میڈیا کی آزادی پر قدغن لگا کر جھوٹا بیانیہ چلایا جاتا ہو، جہاں سول رائٹس اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہو کہ وہ بلوچستان میں جاری جنگ کی مذمت کریں، جہاں بارہ سالہ نوجوان کو گلی میں گولی مار کر شہید کر دیا جاتا ہو، جہاں وزیر اعلیٰ ریاستی بربریت کو جسٹیفائی کرتے ہوئے کہے کہ تشدد کا حق اور اختیار صرف ریاست کو ہے، جہاں نام نہاد شاعر اور لکھاری بلوچوں کے اپنی دفاع میں لڑی جانے والی جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہتے ہوں کہ تشدد کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں اپنی فوج کی شکست کو چھپانے کے لیے “رولز آف دی گیم” میں تبدیلی کی بات کرے اور سیاسی کارکنوں و عام شہریوں کو نشانہ بنائے— ایسے حالات میں خبروں کو اکٹھا کرنا اور ان پر اسی تیزی کے ساتھ لکھنا یقیناً ایک ذہین اور چست لکھاری کا کام ہے۔
اگر بلوچستان کے حالات کا مذکورہ بالا حوالوں سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ بلوچستان کس کربناک دور سے گزر رہا ہے، اور یہ کربناکیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ بلوچستان میں رونما ہونے والے تمام واقعات کو ایک ہی تحریر میں سمیٹنا ممکن نہیں، کیونکہ ہر واقعہ اپنے اندر ایک کہانی، ایک افسانہ، ایک درد کی داستان اور ایک طویل جدوجہد سموئے ہوئے ہے— ایسی جدوجہد جہاں زندگیاں وقف ہوتی ہیں، جہاں شب و روز چلنا پڑتا ہے، کبھی کسی پیارے کی بازیابی کے لیے، کبھی مسخ شدہ لاش کی شناخت کے لیے، کبھی کسی اجنبی قبرستان میں رات کی تاریکی میں دفنائی گئی لاشوں کی شناخت کے لیے، جنہیں اس قدر مسخ کیا گیا ہو کہ پہچاننا ناممکن ہو جائے۔
ایسی بے شمار درد بھری داستانیں بلوچستان کے ہر گھر، ہر گلی، ہر کوچے، ہر دیہات، ہر محلے اور ہر شہر میں سنائی دیتی ہیں۔ اگر ان داستانوں کو ساجد خیرآبادی کے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا:
ان گنت خونی مسائل کی ہوا ایسی چلی
رنج و غم کی گرد میں لپٹا ہر اک چہرہ ملا
بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے ایک مسلسل جدوجہد جاری ہے، اور اس تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ریاست کی جانب سے کریک ڈاؤن، گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں اور قتل عام بھی بدستور جاری ہیں۔ اس کی تازہ مثال 21 مارچ 2025 کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج پر پاکستانی فورسز کا حملہ ہے، جس میں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی گئی، کم از کم پانچ افراد شہید ہوئے، جن میں ایک 12 سالہ بچہ اور ایک بلوچ خاتون بھی شامل ہیں۔ مظاہرین پر ریاستی حملے اور شہادتوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کو دھرنے میں تبدیل کر دیا اور شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ 21 مارچ کی رات کو بھی احتجاج جاری رکھا، جو اس تحریر کے رقم ہونے تک جاری تھا۔
22 مارچ کی صبح طلوع ہونے سے پہلے ہی پاکستانی فورسز نے دھرنے پر دھاوا بول دیا، ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، ان کے ساتھیوں اور تین لاشوں کو جبری طور پر اغوا کر لیا، جن کے بارے میں تاحال کوئی معلومات دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، جنہیں گزشتہ برس ٹائمز میگزین نے دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل کیا، جو بلوچستان کی تحریک کو سڑکوں سے لے کر عالمی سطح پر اجاگر کر رہی ہیں، جنہیں نوبل پیس پرائز کے لیے نامزد کیا گیا، جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دیگر مظلوم اقوام کی بھی توانا اور مؤثر آواز بن چکی ہیں— انہیں ان کی سرگرمیوں اور پاکستانی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں ہمیشہ پاکستانی میڈیا، پارلیمان اور ریاستی ٹرولز کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔
ماہرنگ بلوچ نے بلوچوں کو یکجا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور پاکستانی ریاست اس نہتی بلوچ لڑکی سے خوفزدہ ہے جو اپنی تقاریر اور تحریروں کے ذریعے ریاستی جبر کو بے نقاب کرتی ہے۔ وہ اپنی پرامن جدوجہد سے پاکستانی سفاکیت کو علاقائی و عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں، جس کا ثبوت ان کی عالمی سطح پر پذیرائی ہے۔
ڈاکٹر ماہرنگ کی جبری گمشدگی یا غیر قانونی گرفتاری درحقیقت پاکستانی ریاست کی جانب سے اپنے جرائم کو چھپانے اور بلوچ عوام میں خوف پیدا کرنے کی ایک ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ماہرنگ بلوچ ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہیں۔ انہوں نے بلوچوں کو ایک منظم پلیٹ فارم فراہم کیا اور ایسے رہنما و کارکن پیدا کیے، جو ان کی غیر موجودگی میں بھی بلوچوں کی یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بلوچستان جس تیزی سے حالات و واقعات کے ٹریڈ مِل پر دوڑ رہا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہاں کس قسم کے انسانیت سوز مظالم جاری ہیں۔ بلوچوں کو بے پناہ بربریت کا سامنا ہے، مگر یہ بلوچوں کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بڑھتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو بھی اسی تیزی سے آگے بڑھائیں تاکہ ظلم و جبر کا یہ سلسلہ اپنے انجام کو پہنچے اور بلوچستان میں قتل و غارت کی جگہ خوشحالی اور ایک بہتر مستقبل کی خبریں آنا شروع ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔