جیل میں ڈاکٹر ماہ رنگ کے ساتھ بدترین اور غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جو انہتائی تشویشناک ہیں۔ بہن نادیہ بلوچ

276

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام بلوچ عوام کی سیاسی اور انسانی حقوق کی نمائندہ، بی بی سی، ٹائمز میگزین اور نوبل امن کمیٹی جیسے عالمی اداروں کی جانب سے نامزدہ کردہ ہماری بہن ڈاکٹر ماہ رنگ اس وقت غیر قانونی، غیر آئینی بنیادوں پر جیل میں بند رکھا گیا ہے۔ انہیں جیل میں رکھنے کا مقصد بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کوئی مجرم نہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی سرکردہ رہنما ہیں جن کی سیاسی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو عالمی دنیا نے بھی قبول کیا ہے اور وہ بلوچستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ریاست نے انہیں جھوٹے اور سیاسی دباؤ پر مبنی کیسز میں جیل میں ڈال دیا ہے جن کا ہمیں بخوبی احساس ہے کیونکہ ہم بچپن سے ریاست کی جانب سے ایسے جھوٹے کیسز اور غیر انسانی سرگرمیوں کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ سے پہلے ہماری والد شہید عبدالغفار کو بھی ریاست نے مختلف جھوٹے کیسز میں کئی کئی سال تک جیل میں رکھا، غیر قانونی کیسز میں جب بھی انہیں رہائی ملی تو ریاست نے انہیں پھر سے جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا، ریاست کی یہ غیر انسانی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا ہمیں کئی ادوار سے تجربہ ہے، ڈاکٹر ماہ رنگ خود بچپن میں انہی اذیتوں سے گزری ہے۔ ریاست نے کئی عرصے تک اُس وقت ہماری خاندان کو اذیت میں رکھا اور بالآخر ہمارے والد کی لاش پھینک دی اور ہمیں بےسہارہ کیا۔ جب ہمارا سہارہ ہم سے چھین لیا گیا تو ماہ رنگ ہمارے خاندان کیلئے سہارے کے طور پر سامنے آئی اور زمہ داریاں پوری کی۔ چونکہ وہ خود اپنے والد اور ہمارے درد اور تکلیف سے آشنا تھی اس لیے ان سے گوراہ نہ ہوا کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق، غیر انسانی تشدد، جبری گمشدگیوں جیسے سنگین انسانی جرائم پر خاموشی اختیار کریں اس لیے انہوں نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے ان تمام ماؤں اور بہنوں کو آواز دی جو ریاست کی جبر کا شکار تھیں۔ ہمارے ساتھ ساتھ وہ ان ماؤں کا بھی سہارہ بن گئی جن کے بچے کئی کئی سالوں سے ریاست کے قید خانوں میں جبری گمشدگیوں کے شکار تھے اس لیے اب ریاست نے ہمارے لیے ایک مرتبہ پھر قہر پیدا کر دی ہے۔ ماہ رنگ کو غیر قانونی اور غیر انسانی بنیادوں پر اٹھانا اور جیل میں بند رکھنا بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی بدترین مثال اور آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہاکہ ماہ رنگ جیسے انسانی حقوق کی کارکن، پیشہ ورانہ بنیادوں پر ایک ڈاکٹر اور قومی بنیادوں پر ایک مسیح کے طور پر جانے اور سمجھنے والے شخص کو جس طرح روڑوں پر گھیسٹ کر جیل میں ڈالا گیا، اور اب جس طرح جیل میں ان سے بنیادی انسانی حقوق چھین لیے جا رہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ عدالتوں کی جانب سے واضح حکامات کے باوجود ایجنسیوں کے اہلکاروں کے احکامات پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو بنیادی حقوق میسر نہیں ہیں، انہیں لواحقین سے ملنے نہیں دیا جا رہا، گزشتہ تین دنوں سے ہم مسلسل جیل کے چکر کاٹ رہے ہیں، اور مجھے صرف ایک مرتبہ احتجاج کرنے کی دھمکی کی بعد ہی چند سیکنڈ کیلئے چھوڑا گیا جبکہ باقی فیملی ممبران کو اس حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے جبکہ جیل میں ان کے ساتھ بدترین اور غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جو انہتائی تشویشناک ہیں۔ پولیس کی جانب سے ہمیں صاف کھانا دینے کی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ماہ رنگ کی طبیعت جیل میں ٹھیک نہیں لگ رہی، جبکہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے احکامات پر سیل کے چاروں اطراف، حتی کہ واشروم کے سامنے بھی کیمرے نصب کیے گئے ہیں، جو بنیادی پرائوئیسی کے خلاف ہے اور ان تمام غیر انسانی، غلیط اور بدترین ٹارچر کا بنیادی مقصد ماہ رنگ بلوچ کو ان کی بنیادی اور انسانی حقوق کی جدوجہد سے محروم رکھنا ہے۔ ہم اس ریاست کے جبر کا پہلے بھی کئی مرتبہ شکار ہوئے ہیں، ہمارے والد شہید عبدالغار لانگو کو بھی ریاست نے بدترین تشدد کرکے ان سے سیاسی جدوجہد کا حق چھین نہیں سکا جس کے بعد انہیں تشدد زدہ لاش کی صورت میں ہمیں واپس کر دی اور اب ریاست یہی بدترین جبر اور وحشت کا رویہ اور اذیت ہمیں ماہ رنگ کی جیل میں رکھنے کی صورت میں دے رہی ہے لیکن ہم ان مظالم پر کسی بھی طرح خاموش نہیں رہینگے اور ریاست پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف ہم شدید احتجاج اور جدوجہد کرینگے۔ یہ بات روزہ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماہ رنگ کوئی مجرم نہیں بلکہ انہیں سیاسی مقاصد دباؤ کی بنیاد پر جیل میں قید رکھا گیا ہے اس لیے ریاست ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں سیاسی قیدی جیسے حقوق دیں اور ہمیں سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور نہ کریں۔ ماہ رنگ بلوچ کے سیل کو ایجنسیوں کے اہلکاروں کے حوالے کرنے کے بجائے اور ان کے ساتھ غیر انسانی رویے رکھنے کے بجائے انہیں اپنے آئین میں موجود حق و حقوق دیے جائیں۔

نادیہ بلوچ نے کہاکہ ہم آپ کی توسط سے دنیا بھر کے صحافی حضرات، انسانی حقوق کے کارکن، سیاستدان اور تمام متعلہ افراد کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ جیل میں ہونے والی اس غیر قانونی اور غیر انسانی رویے کے خلاف سخت آواز اٹھائیں۔ عہدا جیل کی کمانڈ اس وقت پولیس کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ہاتھوں میں دی گئی ہے جو اپنی طرف سے ماہ رنگ بلوچ کو شدید اذیت سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ذہنی اور فکری بنیاد پر اسے کمزور بنایا جا سکیں جو کسی بھی طرح ممکن نہیں اس لیے ہمیں خدشہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اہلکار ماہ رنگ بلوچ کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچائیں۔ ریاست کو واضح کر دینا چاہتے ہیں ہم سیاسی اور پرامن لوگ ہیں اور بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں، طاقت اور تشدد ہمیں آج سے دو دہائی پہلے نہ توڑ پائی ہے اور نہ اب توڑ پائی گی اس لیے آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ کو رہا کریں۔ جبکہ بلوچ عوام کو ڈاکٹر ماہ رنگ کا یہی پیغام تھا کہ اپنی سیاسی اور پرامن جدوجہد ہر صورت جاری رکھیں اور بلوچستان میں ہونے والی غیر انسانی سلوک کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں اور احتجاج جاری رکھیں۔ اس ملک میں بلوچ عوام کے پاس ماسوائے جدوجہد کے کوئی بھی راستہ نہیں ہے اس لیے کسی بھی طرح کمزوری نہ دیکھائیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔