جنگ کے بدلتے اصول
تحریر: حکیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گیارہ مارچ 2025 کو جعفر ایکسپریس، جو کوئٹہ سے پشاور کی جانب محوِ سفر تھی، پر ڈھاڈر کے علاقے مشکاف میں ایک مہلک حملہ ہوتا ہے۔ اس حملے میں ٹرین کو مسافروں سمیت یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ ٹرین پر حملے کے کچھ ہی دیر بعد بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جاری بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے۔ ترجمان بی ایل اے، جئیند بلوچ، جعفر ایکسپریس پر حملہ آور ہونے اور اس میں موجود مسافروں کو یرغمال بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، بی ایل اے کے “مجید بریگیڈ”، “فتح اسکواڈ”، “ایس ٹی او ایس” اور “زِراب” نے مشترکہ کارروائی میں جعفر ایکسپریس پر اس وقت حملہ کیا جب وہ کوئٹہ سے پشاور کی جانب رواں دواں تھی۔
بولان کے سنگلاخ اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں پیش آنے والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے ٹرین میں موجود عورتوں، بچوں، بزرگوں اور عام شہریوں کو رہا کر دیا ہے کیونکہ ان کا ہدف صرف پاکستانی فوج کے وہ 214 اہلکار تھے جو ٹرین میں سوار تھے۔
یہ ہائی جیکنگ عالمی میڈیا میں شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ عالمی جریدوں میں بی ایل اے کے بیانات، ان کا موقف، تجزیے، رپورٹس اور پروگرامز نشر کیے گئے۔ دوسری جانب، پاکستانی فوج نے حسبِ روایت یہ دعویٰ کیا کہ یرغمالیوں کو فوجی کارروائی کے نتیجے میں بازیاب کرایا گیا، جبکہ رہا ہونے والے مسافروں نے متعدد مواقع پر میڈیا کو بتایا کہ انہیں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے خود یہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا کہ:
“ہماری آپ سے کوئی دشمنی نہیں، آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔”
یہ ہائی جیکنگ دو دن تک جاری رہی۔ بلوچ لبریشن آرمی نے پاکستانی فوج کو 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کرے اور بلوچ سیاسی و جنگی قیدیوں کو اپنے 214 فوجیوں کے بدلے رہا کرے، بصورتِ دیگر یرغمالی فوجیوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ پاکستانی فوج نے اپنے فوجیوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے بجائے، جعفر ایکسپریس پر ڈرون اور فضائی حملے کی کوشش کی، جسے بی ایل اے نے ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد بی ایل اے نے پہلے دس اور پھر مزید پچاس یرغمال فوجیوں کو قتل کر دیا۔
جعفر ایکسپریس سے رہائی پانے والے چشم دید گواہوں کے مطابق، ٹرین کے ہر بوگی میں لاشیں پڑی تھیں اور ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔
پاکستانی فوج نے اس واقعے کے بعد تقریباً 200 تابوت ہائی جیکنگ کے مقام پر پہنچائے۔ بلوچ لبریشن آرمی کا موقف علاقائی و عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل گردش کرتا رہا، جبکہ پاکستانی فوج کو ابتدائی طور پر محدود معلومات دستیاب رہیں۔ 12 اور 13 مارچ کو، پاکستانی فوج نے آپریشن مکمل کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ 350 یرغمالی رہا کرا لیے گئے ہیں، تاہم میڈیا میں نشر کی جانے والی فوٹیجز میں سو سے بھی کم افراد نظر آ رہے تھے۔
پاکستانی فوج اور ریاستی میڈیا نے واقعے سے متعلق متعدد جھوٹی خبریں بھی چلائیں، جیسے کہ ٹرین کے ڈرائیور کی ہلاکت کی خبر، جو بعد میں غلط ثابت ہوئی جب وہ تیسرے دن زندہ نمودار ہوا۔
بلوچ لبریشن آرمی نے بعد میں ایک تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہوں نے تمام فوجی یرغمالیوں کو دیے گئے الٹی میٹم کے خاتمے کے بعد ہلاک کر دیا تھا۔ بی ایل اے نے اپنے 13 ساتھیوں کی شہادت کا اعلان بھی کیا اور انہیں فوجی اعزازات سے نوازا۔
پاکستانی فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس حملے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ “اب کھیل کے اصول بدل چکے ہیں۔” اس بیان کے بعد، بلوچستان میں پاکستانی فوج کی ریاستی بربریت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس حملے کے بعد، پاکستانی فوج نے کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں رات کی تاریکی میں 13 لاشوں کو دفنانے کی کوشش کی۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو بلوچستان بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین نے ہسپتال جا کر لاشوں کی شناخت کرنے کی کوشش کی، لیکن ریاستی اداروں نے انہیں روک دیا۔ احتجاج کرنے والی خواتین پر پولیس نے تشدد کیا، اور سعیدہ بلوچ سمیت کئی افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما بیبگر بلوچ اور ان کے بھائی حمل بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی ریاست نے ہمیشہ کی طرح جعفر ایکسپریس حملے کے بعد بھی وہی پالیسی اپنائی جو وہ بلوچوں کی آواز دبانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ احتجاج کو کچلنے کے لیے فورسز نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پانچ افراد شہید ہوئے۔
بلوچستان میں آزادی پسند مسلح تنظیموں اور پاکستانی فوج کے درمیان گزشتہ دو دہائیوں سے جاری مسلح تنازع میں، پاکستانی فوج اکثر شکست کے بعد عام بلوچ عوام پر ظلم و جبر کرتی رہی ہے۔ جعفر ایکسپریس حملہ اور اس کے بعد کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست کی ظلم و جبر کی پالیسیاں بلوچ قومی مزاحمت کو کمزور کرنے میں ناکام رہی ہیں، بلکہ اس کے برعکس، ان مظالم نے ہمیشہ بلوچوں میں ریاست کے خلاف جدوجہد کو مزید منظم اور مضبوط کیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔