بلوچستان ریلوے کے ایک افسر نے تصدیق کی ہے کہ منگل کی دوپہر جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد مسلح افراد کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے مسافروں میں سے عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں عام مسافروں کو بحفاظت چھوڑ دیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ انھیں ٹرین سے اتار دیا گیا تھا اور وہ اب پانیر ریلوے سٹیشن کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ اس ٹرین میں 400 سے زیادہ افراد سوار ہیں ، جن میں بیشر کا تعلق فوج اور دیگر سرکاری اداروں سے بتایا جاتا ہے ۔
واضح رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبضہ میں لئے گئے جعفر ایکسپریس میں یرغمال کی صورت حال تاحال جاری ہے، بی ایل اے کے مطابق گذشتہ آٹھ گھنٹوں 214 یرغمالی اور ٹرین انکے قبضے میں ہیں۔
بی ایل اے مطابق ٹرین میں موجود دیگر مسافروں جن میں خواتین بچے بھی شامل تھے کو شناخت کے بعد رہا کردیا جبکہ سو سے زائد فوجی اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار انکے یرغمالی ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی فورسز حکام نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ سروس سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ جعفر ایکسپریس میں سو سے زائد پاکستانی فوجی اہلکار بھی موجود تھے۔
بی بی سی کو ایک سینئر آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ اہلکار ٹرین میں سفر کر رہے تھے جب اسے بی ایل اے کی جانب سے یرغمال بنایا گیا۔
واضح رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے آج صبح تقریباً ایک بجے بولان میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، ٹرین اب بھی ہائی جیک شدہ مقام پر بی ایل اے کے زیر قبضہ ہے اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے صورت حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اس دوران کوئٹہ سمیت قریبی علاقوں سے پاکستانی فورسز کی زمینی اور فضائی دستوں کو جائے وقوعہ کی جانب جاتے دیکھا گیا ہے جبکہ علاقے میں شدید آپریشن اور جھڑپوں کی بھی اطلاعات مل رہے ہیں۔
مزید برآں بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کے نمائندوں کو بھیجے گئے بیان میں فورسز حکام کو سختی سے تنبیہ کیا ہے اگر آپریشن بند نہیں کیا گیا تو تمام یرغمالیوں کو قتل کرکے ٹرین کو تباہ کیا جائے گا۔
تنظیم نے اس موقع پر ریاستی حکام کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی ہے کہ وہ یرغمالیوں کے بدلے لاپتہ افراد کو رہا کرے۔