بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے ادارہ امور خارجہ نے بلوچستان میں جاری کریک ڈاؤن کے بارے میں عالمی سطح پر آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی مہم شروع کی ہے، جس نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے اور ردعمل میں عالمی رہنماؤں نے بلوچستان کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کوشش کے تحت بی این ایم نے آئرلینڈ اور یورپی پارلیمنٹ کے وزیروں اور اراکین پارلیمنٹ سے رابطہ کیا۔ انھیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی غیر قانونی حراست، پرامن مظاہرین پر حملوں اور فائرنگ کے واقعات کے بارے میں بتایا جن میں کئی افراد زخمی اور ہلاک ہوئے۔ اس مہم میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کے جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت تجارتی فوائد انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کو برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے خطرے میں ہیں، اور اس تشویش کا اظہار مختلف عالمی اداروں نے کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے 58ویں اجلاس کے دوران، بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کی قیادت میں پارٹی نے اپنی موجودگی یقینی بنائی۔ بی این ایم کے وفد نے اقوام متحدہ کے مختلف پروگرامز میں حصہ لیا اور چھٹی بلوچستان بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جنیوا میں بی این ایم کے نمائندے بلوچستان کے بارے میں متعدد سفارتی اور ایڈووکیسی اقدامات میں بھی شریک رہے۔
بی این ایم کے ادارہ امور خارجہ کے مطابق، آئرلینڈ کے ٹینیستے (ڈپٹی وزیراعظم) اور وزیر برائے خارجہ امور و تجارت، جناب سائمن ہیریس کے دفتر نے بی این ایم کے توجہ دلانے پر بلوچستان کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ دفتر نے تصدیق کی کہ آئرلینڈ کا سفارت خانہ اسلام آباد میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر سول سوسائٹی کے کارکنوں کی گرفتاریوں سے آگاہ ہے۔ آئرلینڈ اس صورتحال کی قریب سے نگرانی کر رہا ہے اور اس مسئلے پر بحث کے لیے یورپی یونین اور پاکستان کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
آئرش حکومت نے انسانی حقوق کے تحفظ کے عزم کو دہرایا، بشمول اظہار رائے کی آزادی، پرامن احتجاج اور سیاسی شراکت۔ اس نے یہ بھی زور دیا کہ انسانی حقوق یورپی یونین اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا ایک اہم موضوع ہیں، اور 2024 میں 14ویں یورپی یونین پاکستان جوائنٹ کمیشن کے اجلاس میں اٹھائے گئے خدشات کا حوالہ دیا۔ آئرش حکومت نے مزید کہا کہ پاکستان کے جی پی اس پلس اسکیم کے تحت تجارتی فوائد اس کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہونے پر منحصر ہیں اور اس نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ بلوچستان کی صورتحال کی نگرانی جاری رکھے گا۔
بی این ایم کو یورپی پارلیمنٹ کے رکن بیری اینڈریوز سے بھی جواب موصول ہوا، جنھوں نے بلوچستان کی صورتحال اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کی غیر قانونی حراست پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کا حوالہ دیا جن میں ان گرفتاریوں کی مذمت اور گرفتارشدگان کی رہائی کی اپیل کی گئی۔ اینڈریوز نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ انھوں نے گزشتہ سال آئرلینڈ میں فرنٹ لائن ڈیفینڈرز ایوارڈ کی تقریب کے دوران سمی دین بلوچ سے ملاقات کی تھی اور پاکستانی حکام پر انسانی حقوق کا احترام کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا وعدہ کیا۔ انھوں نے یورپی یونین کے انفرادی حقوق اور آزادیوں کے دفاع کے عزم کا اعادہ کیا اور آنے والے ہفتوں میں مزید اقدامات کرنے کا وعدہ کیا۔
اسی طرح، یورپی پارلیمنٹ کی رکن سنیتھیا نی مھرچو کے دفتر نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور دیگر کی گرفتاریوں پر سنگین تشویش کا اظہار کیا۔ بیان میں تصدیق کی گئی کہ نی مھرچو غیر قانونی حراست اور بدسلوکی کے سخت خلاف ہیں۔ انھوں نے جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس مسئلے پر بات کریں گی۔
اس کے علاوہ، آئرلینڈ کے رکن پارلیمنٹ رچرڈ بوئڈ بیریٹ کے دفتر نے پاکستان کے بلوچ عوام کے خلاف جبر کی مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ آئرش حکومت سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی رہائی کے لیے مضبوط موقف اپنانے کی درخواست کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ اس مسئلے پر آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سے پارلیمانی سوال پیش کیا گیا ہے، اور جواب ملنے کے بعد اپڈیٹس فراہم کی جائیں گی۔
بی این ایم کے ادارہ امور خارجہ نے مزید کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچستان میں انسانی حقوق کے بحران کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی بین الاقوامی کوششیں جاری رکھے گا۔ بی این ایم نے یورپی اور امریکی پارلیمنٹ کے اراکین، انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوام متحدہ اور میڈیا سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف فوری کارروائی کی اپیل کی جا سکے۔
بی این ایم جلد ہی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن، یورپی پارلیمنٹ کے دیگر ممالک کے اراکین، برطانوی، جرمن، اور ڈچ ایم پیز کے جوابات پر اپڈیٹس فراہم کرے گا، ساتھ ہی امریکی سینیٹرز کے جوابات پر بھی آگاہ کیا جائے گا۔