بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے تجزیہ نگار شہزاد خیاث کے پروگرام پاکستان ایکسپیرینس میں بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو عوامی حمایت حاصل ہے اور لوگ انہیں نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان کے 23 اضلاع میں اثر و رسوخ رکھتی ہے جبکہ ریاست اپنا کنٹرول کھوچکی ہے۔
ان کے بقول تنظیم کے جنگجو جب کسی تحصیل میں داخل ہوتے ہیں تو گھنٹوں تک کنٹرول سنبھالتے ہیں نادرا دفاتر، لیویز تھانے اور دیگر سرکاری املاک کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر باآسانی اپنا شاپنگ کرکے علاقے سے نکل جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے واضح ہوتا ہے کہ بی ایل اے کو عوامی حمایت حاصل ہے اور وہ عام لوگوں میں مقبول ہو چکے ہیں۔
اختر مینگل نے مزید کہا کہ بلوچستان میں مسلح تنظیموں کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں تاہم سب سے اہم وجہ ریاستی سیکیورٹی فورسز کے جبر اور زیادتیاں ہیں جنہوں نے عام عوام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان گروہوں کی طرف مائل ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج بلوچستان میں خواتین اور بچے بی ایل اے کے جنگجوؤں کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ جب لوگ ریاستی فورسز کو دیکھتے ہیں تو خوفزدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے نوجوانوں یا بچوں کو جبری طور پر لاپتہ کر سکتے ہیں جبکہ بی ایل اے کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں عوامی حمایت حاصل ہے۔
بی این پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جاری مزاحمتی تحریک کو طاقت کے ذریعے دبایا نہیں جاسکتا ان کے مطابق اگر کچھ بنیادی اقدامات کیے جائیں، تو شاید صورتحال میں بہتری آسکے لیکن جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کرانے کے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔