بولان: حملہ آوروں نے کہا ہم سویلین، خواتین بوڑھے اور بچوں کو نہیں مارینگے – عینی شاہدین

474

رات گئے بی ایل اے کی جانب سے رہائی پانے والے درجنوں خواتین بچے اور بوڑھے کوئٹہ پہنچ گئے۔

تفصیلات کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی جانب سے رہائی پانے والوں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے واقعہ کے دوران قیامت خیز حالات گزاریں، حملہ آوروں نے ہمیں چھوڑ دیا اور ہم نے جان بچائی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے مطابق 80 کے قریب یرغمالی بازیاب ہو گئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین بچے بوڑھے شامل ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں رہائی پانے والے یرغمالیوں نے واقعہ کی حوالے بتایا کہ حملے کا آغاز ایک زوردار دھماکے سے ہوا اور ایک گھنٹے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا تب مسلح افراد ٹرین کے بوگیوں میں داخل ہوکر لوگوں کی شناخت کرنے لگے۔

بازیاب ہونے والے ایک مغوی مشتاق احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ہماری بوگیوں کے دروازوں پر تین تین مسلح لوگ پہرے دے رہے تھے، انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ‘سویلین، خواتین، بوڑھوں اور بلوچوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ آپس میں بلوچی میں بات کر رہے تھے اور ان کا لیڈر انھیں بار بار کہہ رہا تھا کہ سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہیے۔

ایک اور مغوی اسحاق نور نے واقعہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہماری بوگی میں سے انھوں نے کم از کم میرا خیال ہے کہ گیارہ لوگوں کو نیچے اتارا اور کہا کہ یہ سکیورٹی اہلکار ہیں، اس موقع پر ایک شخص نے کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس کو تشدد کر کے نیچے اتارا گیا اور پھر گولیاں چلنے کی آواز آئی اس کے بعد بوگی میں موجود تمام لوگ حملہ آوروں کی ہدایات پر عمل کرتے رہے۔

اسحاق نور کا کہنا تھا کہ شام کے وقت انھوں نے کہا کہ ہم بلوچوں، عورتوں، بچوں اور بڑے عمر کے لوگوں کو رہا کررہے ہیں وہ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے مگر جب میں نے ان کو بتایا کہ میں تربت کا رہائشی ہوں اور میرے ساتھ بچے اور خاتون ہیں تو انھوں نے مجھے بھی جانے دیا۔

بازیاب ہونے والے تیسرے مغوی محمد اشرف بی بی سی کو بتایا مسلح افراد کی جانب سے بوڑھوں، عام شہریوں، خواتین اور بچوں کو جانے دیا گیا اور پھر ان کا پنیر سٹیشن کا طویل پیدل سفر شام کے وقت شروع ہوا۔

انھوں نے کہا کہ پنیر سٹیشن تک ہم تین سے ساڑھے تین گھنٹے میں بہت مشکل سے پہنچے، کیونکہ تھکاوٹ بھی تھی اور ساتھ جوان بچیاں، خواتین اور بزرگ بھی تھے اور بچے بھی تھے۔

بی بی سی صحافی کو انٹریو میں محمد اشرف نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ اپنے سامان چھوڑ کر آئے تھے، جبکہ کچھ سامان ساتھ لیے آرہے تھے، جس پر میں نے انھیں کہا کہ یہاں جان بچانا مشکل ہو رہا ہے بہرحال کچھ ضعیف آدمی تھے انھیں ہم لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا اور کرتے کرتے یہاں تک پہنچے۔

انھوں نے بتایا کہ مسافروں میں بہت زیادہ خوف تھا قیامت کا منظر تھا۔

اسی طرح بہاولپور جانے والے مسافر بشیر اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افراد آئے اور انھوں نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ نیچے اتریں، انھوں نے نہ مجھے روکا اور نہ میرے بچوں کو۔

مسلح افراد نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں اس کے بعد ہم لوگ مشکل راستوں سے ہوتے ہوئے پنیر یلوے اسٹیشن پہنچے۔