بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ریاست کا ڈس انفارمیشن پہ مبنی بیانیہ ۔ ثقلین بلوچ

297

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ریاست کا ڈس انفارمیشن پہ مبنی بیانیہ

تحریر: ثقلین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچ جغرافیے کی ایک حقیقی عوامی اور مزاحمتی آواز ہے، جس کا مقصد بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور ساحل و وسائل کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا اور مزاحمت کرنا ہے۔

ماضی قریب میں بالاچ مولا بخش کے ماورائے عدالت قتل کے واقعے پہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے تربت سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا، اس لانگ مارچ کا مقصد بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل کی روک تھام، لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے خاتمے وغیرہ کے مطالبات شامل تھے۔

لانگ مارچ پہ ریاستی جبر تشدد اور ہمیشہ کی طرح اسلام آباد سے مایوسی کا رویہ حاصل ہوا لیکن اس سارے عمل نے بلوچ قوم کو ریاستی جبر کے بیانیے کے خلاف ایک لڑی میں پرو دیا جس کا سہرا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ان کی ساتھیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سر گیا، گوادر میں راجی مچی کی شکل میں، بلوچستان کے طول و عرض میں عوامی اجتماعات کی شکل میں اور دالبندین میں ہونیوالے بلوچ قومی اجتماع کی شکل میں۔
رواں ماہ میں جعفر ایکسپریس اور نوشکی کے واقعات کے بعد ریاست نے تینتیس مسلح افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا مگر اس کے برعکس بی ایل اے نے ان کاروائیوں میں مارے جانے والے اپنے افراد کی تصاویر اور تفصیل شائع کی جو ریاستی دعویٰ کے بلکل برعکس تھی۔

تضادات پہ مبنی ریاستی بیانیہ اور ماضی میں فیک انکاونٹرز میں لاپتہ افراد کے مارے جانے کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین اور بی وائی سی نے بلوچستان حکومت اور ہسپتال انتظامیہ سے لاشوں کی شناخت کا اصولی مطالبہ کیا لیکن حکومت نے اسکے برعکس خاموشی سے کاسی قبرستان میں متعدد لاشوں کو دفن کر دیا اور یہ عمل چور کی داڑھی میں تنکا والی مثال کو ظاہر کر رہا تھا۔

اس کے بعد قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے کوئٹہ میں بی وائی سی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا جس میں بیبرگ بلوچ انکے بھائی، بانک سعیدہ بلوچ اور قمبرانی فیملی کے آٹھ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

اس کریک ڈاؤن اور جبری عمل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کی کال دی جس پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا جس میں تین افرد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے اور متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

اس ظلم و بربریت کیخلاف ایک بار پھر عوام نے احتجاج کیا لاشوں کو سامنے رکھ کر جس پہ سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر دھاوا بول کر لاشوں کو زبردستی اپنی تحویل میں لے لیا اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

اس ریاستی بربریت کے خلاف پورے بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں پرامن احتجاج میں سمی دین بلوچ، لالا وہاب بلوچ اور دیگر ساتھیوں کی تشدد نما گرفتاری ریاست کے ہارڈ سٹیٹ بیانیہ کے تسلسل کی ایک جھلک ہے۔

دوسری جانب سرکاری ڈس انفارمیشن پہ مبنی بیانیہ، مسلم لیگ ن کا غلیظ سوشل میڈیا سیل اور کچھ پیڈ ٹرولز کی جانب سے ڈس انفارمیشن پھیلائی گئی کہ یہ احتجاج جعفر ایکسپریس میں مارے جانے والے مسلح افراد کی لاشوں کی حوالگی کیلئے کیا گیا جو کہ ایک من گھڑت بیانیہ تھا کیونکہ کوئٹہ میں ہونے والا احتجاج بی وائی سی کے کارکنوں اور قمبرانی فیملی کے افراد کے بازیابی کیلئے تھا۔

ریاستی بیانیہ جب بلوچ خواتین کی مزاحمت سے شکست کھا گیا تو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے تعلیمی سرٹیفیکیٹس پبلک کرکے انہیں انکے بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو کی بنیاد پر کردار کشی کا نشانہ بنایا گیا جہاں انہوں نے زکر کیا تھا کہ کس طرح نامساعد حالات میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔

پاکستانی میڈیا اور پنجاب کے بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ بلوچستان میں بہت سی بلوچ خواتین دستکاری، خواتین کے بلوچ ثقافتی ملبوسات کو اپنے ہاتھوں سے بنا کر فروخت کرتی ہیں جہاں ایک سوٹ کی قیمت پچاس ہزار سے لیکر ایک لاکھ تک ہے، اس اجرت سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم وغیرہ کے اخراجات کو یقینی بناتی ہیں، ان ملبوسات کی بلوچستان سے باہر خلیجی ممالک میں بھی بہت زیادہ مانگ ہے۔
بلوچ خواتین کی مزاحمت سے شکست کھانے کے بعد سرکاری نشوونما پہ چلنے والے سوشل میڈیا سیل اور فیک اکاؤنٹس بلوچ خواتین کی زاتی کردار کشی پہ اتر آیا اور اپنی وہی غیر اخلاقی و غیر معیاری تربیت کو عیاں کرنے لگا جو اس کی پہچان ہے، انہیں نہیں معلوم کہ یہ بلوچ بیٹیاں بانڑی، گل بی بی، شاہ گلی، بیبو احمدزئی، اللہ ڈینی احمد زئی، روز خاتون اور کریمہ بلوچ کی جہد کے تسلسل کی وارث ہیں۔ انہیں جیلوں ہتھکڑیوں اور کردار کشی جیسے گھٹیا ہتھکنڈوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔