بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے جعفر ایکسپریس پر قبضے کو 30 گھنٹے سے زائد گزر گئے ۔ اس سلسلے میں محمکہ صحت کی طرف سے کوئٹہ کے تمام اسپتالوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ تمام ڈاکٹرز اور دیگر عملہ 24 گھنٹے موجود رہیں ۔
ایک مقامی اسپتال ذرائع کے مطابق انہیں اطلاع ملی ہے کہ بولان سے ایمبولینس لاشیں اور زخمیوں کو لے کر کوئٹہ کی طرف آرہے ہیں ۔
بتایا جارہا ہے کہ اس آپریشن کے دوران مارے گئے اور مغوی اہلکاروں کی لاشیں اور زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا جارہا ہے ۔ جبکہ شہر کے تمام سڑکوں میں فوجی گشت اور اسپتالوں میں مزید سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے ۔
تاہم بی ایل اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یرغمال بنائے گئے تمام خواتین ، بزرگ اور بچوں کو رہا کردیا، جبکہ 200 سے زائد فوجی اہلکار انکے تحویل میں ہیں ۔
رات گئے درجنوں مسافر جن میں زیادہ تر خواتین ، بچے ، بوڑھے افراد شامل تھے کوئٹہ پہنچ گئے تھے اور بازیاب ہونے والے متعدد یرغمالیوں نے میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز میں اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ انھیں حملہ آوروں نے خود بحفاظت رہا کردیا ہے۔
میڈیا کو جاری ایک تازہ بیان میں بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہاکہ آج قابض پاکستانی فوج کی جانب سے دی گئی وارننگ اور جنگی قیدیوں کے تبادلے کے آپشن کو مسترد کرتے ہوئے کی گئی عسکری جارحیت کا سخت اور حتمی جواب دیا ہے۔ دشمن فوج نے آج توپ خانے اور بھاری ہتھیاروں سے پیشقدمی کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ بی ایل اے کے سرمچاروں نے پیشہ ورانہ عسکری حکمت عملی کے تحت دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اور فوج کو بدترین شکست دے کر پسپائی پر مجبور کر دیا۔ تاہم، اس معرکے میں بی ایل اے کے تین سرمچار مادرِ وطن کی راہ میں قربان ہو گئے، جو بلوچ قومی جنگِ آزادی میں ایک نئی تاریخ رقم کر گئے۔
ترجمان نے کہاکہ پاکستانی فوج کی اس جارحیت، ہٹ دھرمی اور قیدیوں کے تبادلے پر غیرسنجیدگی کے جواب میں بی ایل اے نے ایک گھنٹے قبل مزید 50 یرغمالی فوجی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے، جو بلوچ قومی عدالت میں بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں، وسائل کی لوٹ مار، ریاستی دہشت گردی اور جنگی جرائم میں براہ راست ملوث پائے گئے تھے۔