بلوچ سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہیں ۔بلوچ وومن فورم

73

بلوچ وومن فورم کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ عوام بشمول خواتین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کریک ڈاؤن میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ریاستی ادارے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں تاکہ انسانی حقوق کے لیے جاری بلوچ عوام کی پرامن جدوجہد کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ کل سول اسپتال سے سعیدہ بلوچ اور دیگر بلوچ خواتین کی غیر قانونی حراست اور آج علی الصبح بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے مرکزی رکن بیبگر بلوچ کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ جہاں انہیں اور ان کے چھوٹے بھائی اور پی ایچ ڈی سکالر ڈاکٹر حمل زہری کو جبری طور پر حراست میں لے لیا گیا ریاست کے غیر آئینی اقدامات اور بلوچ آوازوں کو دبانے کے عزائم کو واضح کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہاکہ دوسری جانب بلوچ طلبہ کے ہاسٹلز اور گھروں پر مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں رات گئے شناخت کے نام پر انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ رات بولان میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل ڈاکٹر الیاس بلوچ اور ان کے اہلِ خانہ کو بھی ایک چھاپے کے دوران ہراساں کیا گیا جس کے بعد انہیں اور ان کے بیٹے کو زبردستی لاپتہ کر دیا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ نئے اپنائے گئے ریاستی جبر کے یہ طریقے نہ صرف بلوچ عوام بلکہ معاشرے میں مزید انتشار اور بےچینی پیدا کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ان غیر قانونی اقدامات، جبری گرفتاریوں اور تشدد کی بلاتفریق سخت مذمت کرتے ہیں۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری حراست میں لیے گئے تمام افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے تاکہ بلوچ حقوق کی پرامن جدوجہد کو مزید دبانے کے بجائے مثبت حل نکالا جا سکے۔