بلوچ سرمچار عورت اور منافقت
(حصہ اوّل)
تحریر: آئی_کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“خوف اور نظریہ کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے، جب خوف اور نظریہ ایک ساتھ چلنے لگے تو نقصان ہمیشہ نظریہ کا ہوتا ہے”
انسان کی زندگی ہمیشہ یادوں کی سرکس میں رقص کر رہی ہوتی ہے کیونکہ انسانی زندگی اور انسانی یادوں کا نہ ٹوٹنے والا ایک رشتہ ہوتا ہے جو بار بار انسان کو ماضی کی طرف لے جاتا ہے جہاں دو قسم کے انسان پیدا ہوتے ہیں ایک وہ جو ماضی اور ماضی کی یادوں میں رہ کر خود کو دن رات پیٹ رہا ہوتا ہے دوسرا وہ جو ماضی سے سیکھ کر مضبوطی کے ساتھ مستقبل کی طرف گامزن ہوتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے ” ماضی رہنے کے لیے نہیں بلکہ سیکھنے کے لیے ہوتا ہے ” اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی اور ماضی کی یادیں کبھی دل کش تو کبھی دل سوز ہوتے ہیں ۔
کچھ یوں ہی مہروان اور انکے ساتھیوں کی زندگی، یادوں کے سرکس میں جوش وخروش سے رقص کر رہی تھی شاید اس لیے کہ ان کی یادوں میں وطن پہ قربان ہونے والے بلوچ سرمچاروں کی وہ قربانیاں ،وہ آخری گولی کا فلسفہ،وہ جذبات تھیں جو انہیں ماضی میں رہنے نہیں دے رہیں تھی بلکہ مستقبل کی طرف گامزن ہونے کے لیے مضبوط کر رہیں تھی تبھی تو وہ مسلسل دو دن سے پیدل سفر کر رہے تھے(ویسے یادیں بھی بچپن سے لیکر موت تک مسلسل سفر کا نام ہے) مسلسل سفر کے دوران ایک سنگت(دوست)نے آواز دی سنگت، بہت پیاس لگی ہے اور بہت بھوک بھی لگی ہے اس کمبخت بھوک کی وجہ سے مجھے مہروان کا چہرہ ،گول روٹی کی طرح نظر آرہا ہے۔
یہ سنتے ہی ،سب سنگت بٌجھی آنکھوں اور تشنہ لب کے ساتھ زور زور سے ہاہاہا_ہاہاہا _ہاہاہا !
سنگت زندہ رہنے کے لیے صرف غذا کی نہیں بلکہ ، مسلسل جہد اور بغاوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جی جی (NON-PTA) چے گویرا جی , شیروف، مہروان کو تنگ کرتے ہوئے ہاہاہاہا ۔
خیر ! مسلسل سفر کے دوران ،دور سے ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا تو مہروان نے دوستوں سے کہا کہ میں اور شیروف پانی لے کر آتے ہیں آپ لوگ ادھر ہی آرام کریں وہاں پہنچتے یہ ایک بچی باہر آئی، پوچھنے لگی کون ہو تم لوگ ؟ مہروان نے کہا جی ہم مسافر ہے پانی چاہیے۔ اک عجیب انداز میں دیکھنے کے بعد ” مسافر اور بندوق کے ساتھ ؟ تو شیروف نے کہا گودی(بہن) ہم پاکستانی فوجی سے ہیں میرا مطلب ہم مارخور ہیں۔شیروف مزید بولنے ہی لگا تھا کہ اندر سے آواز آئی ، مہکان باہر کون ہے ؟
لٌمہ(ماں)جان! معلوم نہیں ،کچھ “مالخور” آئے ہیں پانی مانگ رہے ہیں ۔
اتنے میں لمہ جان ( عورت) باہر آئی اور گھورنے کے بعد کہنے لگی، شٌوم مہکان ، یہ مال خور نہیں _ سرمچار ہیں ۔
یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارے گھر سرمچاروں کی آمد ہوئی ہیں وگرنہ آج کل کہ نوجوان تو فقط ایک دوسرے کی ٹِک ٹاک، فیس بک ، یوٹیوب (سوشل میڈیا) فالوورز ، لائق اور کمنٹس بڑھانے کے چکر میں ایک دوسرے کے آگے پیچھے،گھر گھر جا کر دٌم ہلا رہے ہوتے ہیں اور یہی ذہنی اپائج نوجوان دو، دو ، تین تین سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا کر کتوں (معذرت کے ساتھ) کی طرح عورت زات کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔
لٌمہ جان یہ سرمچار کیا ہے ؟ معصوم مہکان ، لمہ جان کی بات کاٹے ہوئے..
لمہ جان ،ایک ہی سانس میں…
سرمچار وطن سے محبت کی اعلیٰ ترین شکلوں میں سے ایک شکل ہے۔
سرمچار ایک گلاب ہے ایک خوشبو ہے ایک آگاہی ہے اور ایک جھلکتی ہوئی خوشی ہے جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتا۔
سرمچار وہ کتاب ہیں جنکا ہر صفحہ آزادی ہیں ۔
خیر چھوڑو مہکان ! تم جاکر پانی اور کھانا لاؤ تب تک میں اِدھر اُدھر نظر دوڑاتی ہوں کہیں تمہارے بزدل باپ نہ آئے۔
مہروان اٌن کی طرف دیکھتے ہوئے شیروف سے کہنے لگے آج مجھے یقین آگیا کہ آج کی بلوچ عورت آزادی اور خود مختیاری پہ یقین رکھتی ہےاور آج سرمچاروں کے صفوں میں عورتوں کا شامل ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ اب سرمچاروں اور بلوچ عورتوں میں،شعور، تعلیمات،بغاوت، اور جنگ کی پہچان پیدا ہوا ہے۔
سنگت, پھر ان منافق ،لکھاری ،ادیب ،استاد(یہاں بلوچ منافق لوگ، لکھاری ، ادیب اور استاد سے مراد چار طرح کے لوگ ۔
1.وہ لوگ جو خود کو بلوچ دوست، غمخوار ظاہر کرتے ہیں پیٹھ پیچھے دشمن کے ساتھ ملکر اپنے ہی لوگوں کے خلاف شازش کرتے ہیں اور دوران جنگ دشمن کو رستہ دیں کر انکو محفوظ جگہ منتقل کرتے ہیں۔
.2. یہ لوگ گرگٹ کی طرح ہیں جس طرح گرگٹ ماحول دیکھ کر رنگ بدلتا ہے اسی طرح یہ موقع دیکھ کر رنگ بدلتے ہیں
۔3. یہ وہ لوگ ہیں جو بھیڑیے کے ساتھ مل کر شِکار کرتے ہیں اور پھر چرواہے کے ساتھ بیٹھ کر آنسُو بھی بہاتے ہیں۔
۔4. نظریاتی ڈرپوک لوگ جو اپنے ہی گھر کے کھڑکیاں اور دروازے بند کر کے بقاء کی جنگ،اور بلوچ حقوق کی بات کرتے ہیں۔ نوٹ : خوف اور نظریہ کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے،جب خوف اور نظریہ ایک ساتھ چلنے لگے تو نقصان ہمیشہ نظریہ کا ہوتا ہے ۔
۔) وڈیرا ،سردار،میر ،ملا اور پنڈت کا کیا جو کہتے ہیں بلوچ سرمچار، بلوچ عورتوں کا استحصال کر رہے ہیں ؟
سنگت شیرٌو ! جب سے بلوچ عورتوں نے سرمچاروں کا ساتھ دیتے ہوئے بقاء کی جنگ ، آزادی اور بلوچستان کی ترقی کا خواب دیکھنا شروع کیا ہے اور جب سےہمارے بیمار سوچ کے مالک ، منافق ،لکھاری ،ادیب استاد ,سردار, میر وڈیرے, مولوی اور پنڈت کو لگا کہ ان کی لنگڑے ،اپائج وجود کو خطرہ ہے تب سے وہ کبھی مذہب ، تو کبھی بلوچی رویات کا سہارا لے کر کہتے ہیں سرمچار ،بلوچ عورتوں کا استحصال کررہے ہیں ۔
سنگت شیرو! بقاء کی جنگ ہر عورت ، مرد ،ہر قوم اور ہر فرد کی بنیادی حق ہے اور بقا کی جنگ لڑنے سے پہلے ذہنی اور فکری جنگ ضروری ہے کیونکہ ذہنی اور فکری جنگ ہی تو انسان کو غلامی کا احساس دلاتی ہیں۔ ذہنی اور فکری جنگ لکھاری، ادیب، شاعر، گلوکار اور استاد سکھاتے ہیں لیکن جب ایسے لوگ منافق ہو سستی شہرت اور جھوٹی تعریفوں کے زنجیروں میں قید ہو۔ وہ کیا بقاء کی جنگ سکھائیں گے؟ ایسے منافق لوگ ہی ظالموں کے حوصلہ ہوتے ہیں ،اور ایسے ہی لوگ،انسانوں کی انفرادی ،خاندانی اور وطن ،زہنی آزادی کو مسخ کرنے لگتے ہیں ۔
سنگت ! آپکو یہ بھی بتاتا چلوں کہ وطن کیلئے قربان ہونا , بقاء کے لیے لڑنا یا آزادی کےلئے لڑنا یہ ایک انسان کی کوئی ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا یہ ایک مکمل ایک قوم کی سوچ ہوتی ہے ایک شخص کی قربانی ،پوری قوم کی قربانی ہوتی ہے ۔
دونوں سنگت باتوں میں لگے ہوئے تھے کہ اتنے میں “لمہ جان” انکو کھانا اور پانی دیتے ہوئے کہنے لگی میرے وطن پرستوں،میرے سرمچاروں ، بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے اپنے اندر دشمن کا ڈر پیدا کرنا یا قدم قدم پہ بہک جانا وطن اور جنگ کی بے حرمتی ہے۔
(سنگتوں کی یادوں کو اور لمہ جان کی باتوں کو” بلوچ سرمچار _ عورت اور منافقت” کا نام دے کر لکھ ہی رہا تھا کہ سورج کی خوبصورت کرنیں کب زرد ہوگئیں پتہ ہی نہیں چلا۔فی الحال اجازت _ لیکن جب صبح کی نئی کرنیں نصیب ہونگیں تو پھر ملاقات ہوگی )
جاری ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔