بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کیخلاف دھرنے: لواحقین نے پہلا روزہ سڑکوں پر کھولا

51

بلوچستان میں رمضان المبارک کا پہلا روزہ ، پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے پہلا افطاری سڑکوں پر کی۔ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کا کئی دنوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے بلوچستان کے اہم مرکزی کوئٹہ، کراچی، کوئٹہ تفتان شاہراہوں پر احتجاج کے پیش نظر آج چوتھے روز شاہراہیں تین مختلف مقام پر بند ہے ۔

تفصیلات کے مطابق سوراب کے مقام پر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین و بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا کوئٹہ ،کراچی شاہراہ پر تیسرے روز میں داخل، مزید دو متاثرہ خاندان مظاہرے میں شامل ہوگئے ۔

واضح رہے گذشتہ روز حکام نے لواحقین کو دو افراد کی بازیابی کی یقین دہائی کرائی تھی تاہم لواحقین کا کہنا کہ جبری لاپتہ تمام 9 افراد کو بازیاب کیا جائے۔

دوسری جانب حب میں جبری گمشدگیوں کیخلاف بھی دھرنا چوتھے روز جاری ہے ، جہاں آج صبح پولیس نے مظاہرین خواتین و بچوں پر طاقت کا استعمال کیا۔

پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ سمیت لاٹھی چارج کی اور لاپتہ افراد کے لواحقین و بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان کو حراست میں لیا گیا۔

دھرنا مظاہرین کا کہنا ہے کہ بوڑھی خواتین سمیت 9 افراد کو پولیس نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

پولیس تشدد کے باوجود لواحقین کا دھرنا جاری ہے۔

دریں اثناء کردگاپ میں بھی دوسرے روز جبری گمشدگیوں کیخلاف کوئٹہ تفتان شاہراہ پر دھرنا جاری ہے. دھرنا کے شرکاء کا کہنا ہے ہمارے علاقے کے دس سے زائد افراد فورسز کے ہاتھوں مختلف علاقوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں جن کی بازیابی کے لئے علاقے کے عوام روڈ پر دھرنا دے رہے ہیں۔

وہاں خضدار میں حب دھرنے پر فورسز کریک ڈاؤن کے خلاف بھی احتجاج کے باعث شاہراہ کو بند کیا گیا ہے ۔

لواحقین نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ پیاروں کے بغیر ہماری خوشیاں اور زندگی ماند پڑچکی ہیں ۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمانوں کو ریلیف دیا جاتا ہے ، لیکن پاکستان بلوچوں کے ساتھ بدترین ظلم کیا جارہا ہے ۔ احتجاجی دھرنے میں شامل بوڑھے ، بچے اور خواتین کو روزہ کی حالت میں تشدد کیا جارہا ہے۔

لواحقین نے اہل بلوچستان سے اپیل کہ وہ اس جبر کے خلاف ہمارے ساتھ شامل ہوکر انسانیت کا فرض نبھائیں ۔