بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ سیاسی رہنما زاہد بلوچ، جنہیں مارچ 2014 میں سیکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا، آج تک لاپتہ ہیں، ان کے اہلِ خانہ مسلسل ان کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے کہ آج زاہد کے دوسرے بھائی اور خاندان کے واحد کفیل، شاہجان بلوچ کو دن دہاڑے ٹارگٹ کلنگ کرکے شہید کردیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ اس المناک واقعے کو نہ تو مین اسٹریم میڈیا میں کوئی نمایاں کوریج ملی، نہ قاتلوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی یا فوجی آپریشن ہوا، نہ کوئی وزیر تعزیت کے لیے لواحقین کے پاس آیا، اور نہ ہی پاکستانی صحافیوں یا اشرافیہ نے اس ظلم کی مذمت کروانے کے لیے کوئی مہم چلائی۔
سمی نے کہاکہ رمضان جیسے بابرکت مہینے میں بھی مظلوم و محکوم بلوچ کے بہنے والے خون کی کسی کو پرواہ نہیں، کیونکہ بلوچ کا خون سستا ہے یہ کسی کو نظر نہیں آتا، نہ ہی کسی کے درد و تکلیف پر کوئی آواز اٹھتی ہے۔ بلوچ کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، چاہے وہ کسی ماں کا آخری بیٹا ہو یا کسی گھر کا واحد کفیل۔ معصوم اور بے گناہ بلوچوں کا خون شاید کسی کے لیے کوئی معنی نہ رکھتا ہو، لیکن یہ دوہری پالیسی بلوچوں کے رشتے اور حیثیت کو دیگر اقوام کے مقابلے میں مزید واضح ضرور کر رہی ہے۔