بلوچ لبریشن آرمی کا تاریخی اقدام – ٹی بی پی اداریہ

4690

بلوچ لبریشن آرمی کا تاریخی اقدام

ٹی بی پی اداریہ

کچھ دن پہلے بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ ظفر اللہ زہری نے اسمبلی میں معروضی حقائق بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں پاکستان فوج کی نہیں بلکہ بشیر زیب (سربراہ بلوچ لبریشن آرمی) اور ڈاکٹر اللہ نظر (بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سپریم کمانڈر) کی رٹ ہے اور بلوچستان کی اہم شاہراہیں آزادی پسند مسلح تنظیموں کے دسترس میں ہیں۔ کل بولان میں مشکاپ کے مقام پر بلوچ لبریشن آرمی کے مختلف یونٹس کا پاکستان ریلوے کی جعفر ایکسپریس ٹرین پر قبضہ کر کے پاکستان فوج اور ملٹری انٹیلیجنس کے دو سو سے زائد اہلکاروں کو یرغمال بنانا واضح کرتا ہے کہ بلوچ مسلح تنظیموں کی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور بلوچستان میں پاکستان فوج کی رٹ ختم ہوتی جا رہی ہے۔

دنیا میں آزادی کی تحریکوں میں ایسی مثالیں کم ملتی ہیں کہ گوریلا جنگجوؤں نے اتنی بڑی تعداد میں کسی فوج کے اہلکاروں کو یرغمال بنایا ہو۔ مشکاف میں بلوچ لبریشن آرمی کا جعفر ایکسپریس ٹرین سمیت سینکڑوں پاکستانی فوجی اہلکاروں کو یرغمال بنانا ان کی جنگی صلاحیتوں، بدلتی حکمت عملیوں اور طاقت کا واضح اظہار ہے۔ جعفر ایکسپریس ٹرین پر قبضہ بلوچ مسلح تنظیموں کی منظم اور پیچیدہ حملے جاری رکھنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی کا یرغمالی اہلکاروں کو جنگی قیدی قرار دے کر بدلے میں بلوچ سیاسی اسیران کا تبادلہ سنجیدہ کوشش اور ذمہ دارانہ رویے کا اظہار ہے اور بین الاقوامی جنگی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ٹرین میں موجود عورتوں، بچوں اور سویلین کو رہا کر کے ایک ذمہ دار مسلح تنظیم ہونے کا پیغام دیا ہے۔ فوجی مہم جوئی کے باعث پاکستان فوج اور انٹیلیجنس اداروں کے یرغمالی اہلکاروں کی بازیابی کے امکانات کم ہیں۔ پاکستان کے بااختیار قوتوں کو بلوچ لبریشن آرمی کے فیصلے کا مثبت جواب دے کر فوجی اہلکاروں کو مذاکرات کے ذریعے بازیاب کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہییں۔

بلوچستان کے معروضی حقائق سے واضح ہے کہ طاقت کے ذریعے بلوچ تحریک آزادی کا انسداد ممکن نہیں۔ مسلح تنظیموں کی پالیسیوں اور اقدامات سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ مستقبل میں اس طرز کے شدید اور مہلک حملے پاکستانی فوج پر جاری رہیں گے۔

بلوچستان کی متنازعہ حکومت کے وزرا اور پاکستان کی برسرِ اقتدار سیاسی شخصیات و پارٹیاں بلوچ مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مسلسل اظہار کرتی رہی ہیں، تاہم بلوچ لبریشن آرمی کی سنجیدہ پیشکش پر پیش رفت کرنے کے بجائے غیر سنجیدہ رویے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کی سنجیدہ کوششوں کا مثبت جواب دے کر یرغمالی ریاستی اہلکاروں کو بچایا جا سکتا ہے، مگر طاقت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی پالیسی برقرار رکھی گئی تو بعید نہیں کہ اس کے نتائج ریاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔