75 سالہ بیمار اور ضعیف شخص کو اس طرح غائب کرنا ناانصافی اور ظلم کی بدترین مثال ہے۔ بیٹی استاد واحد کمبر بلوچ

75

لاپتہ بلوچ رہنما استاد واحد کمبر کی بیٹی مہلب بلوچ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں غیرت مند بلوچ قوم کی ان ہزاروں بیٹیوں کی طرح ایک بےبس اور لاچار بیٹی ہوں، جن کے پیارے وقت کے حکمرانوں کے زندان میں غیر انسانی اذیت سہہ رہے ہیں۔ کہنے کو ہم اکیس ویں صدی میں جی رہے ہیں لیکن آپ خود اندازہ کریں، آپ ایک بیٹی، بہن، ماں یا ایک لاچار بوڑھے والد یا نادست رس بھائی کی طرح سوچ کر دیکھیں کہ جس قوم کا ایک بڑا حصہ غیر اعلانیہ، غیر قانونی، غیر انسانی زندانوں میں قید ہو، وہ قید جہاں نہ وہ روشنی دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی انسانی روح، تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قوم بھی اکیس ویں صدی کی جدید دور میں جی رہا ہے؟ مجھے معاف فرمائیے، اگر جو بھی ایسا سوچتا ہے تو اسے بلوچ کے دکھ کا اندازہ نہیں یا اس کی نظروں میں بلوچ انسان ہی نہیں ہیں۔ ہم ما قبل تاریخ کے تاریک دور میں جی رہے ہیں۔ ہمیں انسان نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر زندانوں میں جبری گمشدہ رکھا جاتا ہے۔ ہمارے جوانوں کے سینوں پر ڈرل مشین چلائی جاتی ہے۔ کیا انسان کے ساتھ انسان ایسا کرسکتا ہے۔ میرے خیال میں آپ کا جواب بھی “نہیں” میں ہوگا۔ لیکن سچ میں ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ اس بارے میں میرا ایک ہی جواب ہے۔ یا تو ہم انسان نہیں یا آپ۔ لیکن ہم طاقتور حاکموں کو حیوان نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ ابھی وقت ان کا چل رہا ہے اور ہماری فقط چیخیں فضا کی وسعتوں میں جمع ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ میں ایک بلوچ بیٹی کی حیثیت سے اپنی فریاد لے کر آئی ہوں۔ میرے 75 سالہ بوڑھے اور ضعیف والد واحد کمبر بلوچ کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے 19 جولائی 2024 کو ایران کے علاقے کرمان سے اغوا کیا اور تاحال ان کی کوئی خیر خبر نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں کس زندان میں قید رکھا گیا ہے اور ان پر کس طرح کا تشدد ہو رہا ہے۔ لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ ایک جانب میرے عمر رسیدہ والد اس وقت زندگی اور موت کے درمیان ایک اذیت ناک جنگ لڑ رہے ہیں تو دوسری جانب ہم اہلخانہ موت و زیست کے درمیان معلق ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آج میں جس مقام پر آپ سے مخاطب ہوں، یہ جگہ میرے لیے نئی نہیں۔ آج سے 18 سال قبل، 2007 میں، میرے والد کو ریاستی افواج نے کیچ سے ان کے دوستوں سمیت اغوا کیا تھا۔ اس وقت بھی ہم نے کراچی پریس کلب میں متعدد پریس کانفرنسز کیں، احتجاجی مظاہرے کیے اور انصاف کے ہر دروازے پر دستک دی۔ ان پر دہشت گردی کے 11کیسز لگائے گئے تھے۔ عدالت و استغاثہ ریاست ہونے کے باوجود میرے والد تمام مقدمات سے بری ہوگئے اور مئی 2011 میں ہائی کورٹ نے میرے والد کو باعزت بری کر دیا۔ لیکن رہائی کے بعد بھی ان کا جینا مشکل بنا دیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ وہ عمر رسیدہ اور کئی بیماریوں میں مبتلا تھے مگر اپنے سیاسی نظریے پر ثابت قدم بھی تھے۔ اسی وجہ سے انہیں مسلسل تعاقب کا سامنا تھا۔ ریاستی ادارے کسی بھی وقت ان کا جان لے سکتے ہیں۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح جی نہیں سکتا تھا۔ انہیں اپنی زندگی کی تحفظ اور علاج کے لیے ایران میں اپنے رشتہ داروں کے پاس منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا۔

مزید کہاکہ اس بارے میں یہ میری پہلی پریس کانفرنس نہیں۔ اس سے قبل ہم نے کوئٹہ پریس کلب میں بھی آواز بلند کی، عدالت میں درخواست جمع کروائی اور پھر بلوچستان کے شہر تربت میں احتجاجی ریلی نکالی، جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ہماری ان تمام کوششوں کا مقصد صرف ایک ہے کہ میرے والد کو منظر عام پر لایا جائے۔ اگر ان پر کوئی بھی ریاستی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور انہیں فئر ٹرائل کا حق دیا جائے۔ لیکن اب تک ریاستی اداروں کی جانب سے ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔ ہم اپنے والد سے دستبردار ہونے والے نہیں بلکہ آئینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے ان کی بازیابی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔

مہلب بلوچ نے کہاکہ میرے والد، واحد کمبر بلوچ، ایک قومی لیڈر ہیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچ عوام کے حقوق اور ان کی شناخت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ انہیں اس طرح جبری طور پر لاپتہ کر دینا انسانی حقوق اور پاکستانی آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی قانون میں 75 سالہ بیمار اور ضعیف شخص کو اس طرح غائب کرنا ناانصافی اور ظلم کی بدترین مثال ہے۔ اگر ریاست کے پاس میرے والد کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور قانونی تقاضوں کے مطابق کارروائی کی جائے۔ میرے والد عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ حال ہی میں ان کی دل کی انجیوپلاسٹی ہوئی تھی۔ وہ ڈائیبٹیز (ذیابیطس) اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مخصوص دوائیں تجویز کر رکھی ہیں، اور ان دواؤں میں کسی بھی قسم کی کمی یا تبدیلی ان کی جان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

آخر میں کہاکہ مجھے بتائیں، کون سا قانون ریاستی اداروں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں جا کر ایک 75 سالہ ضعیف انسان کو زبردستی اغوا کرے اور اسے قید میں ڈال دے؟ کیا یہ ایوانِ انصاف صرف دکھاوے کے لیے ہیں؟ کیا میرے والد کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک بلوچ قوم پرست رہنما ہیں؟ آپ صحافی حضرات سے میری اپیل ہے، اور آپ کا فرض بنتا ہے کہ بے بس آوازوں کی آواز بنیں۔ ان میں اپنی آواز اور قلم کی روشنی شامل کریں۔ یہ صرف میری، بلوچ قوم یا کسی ایک مظلوم کی لڑائی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی لڑائی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ انسانیت کی لاج رکھیں گے۔