ہم بدلے نہ وقت نے ہم پر رحم کیا
تحریر: برکت مری، پنجگور
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں سیاسی جمہوری جدوجہد ہو یا مسلح جدوجہد، ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں۔ ہم نے غیروں کو موقع کم اور خود کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی میدان میں مصنوعی طور پر اور مسلح جدوجہد میں مخبر کے روپ میں اپنا نظریہ پیش کیا۔ اس سوچ نے مفاد پرستوں کو وقتی طور پر عیاشیوں سے آشنا کرایا لیکن تاریخ کے بدنما داغ سے کبھی نہیں بچایا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اپنی ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر ہر اس شخص کو غدار اور اداروں کا ایجنٹ قرار دیا جسے وقت نے ثابت کر دیا کہ اس کی جدوجہد کس کے لیے اور کیوں تھی۔ ہم نے کبھی کسی مثبت تحریک کو پنپنے ہی نہیں دیا تاکہ یہ جان سکیں کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ آج چیدگی جیرک بارڈر پر فیزیکل ویری فیکیشن کے دوران، بظاہر ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے علاوہ، باقی سبھی آپ کو طرح طرح کے 17، 18، 19 اور 20 گریڈ کے افسران، سرکاری اداروں کے افسران، سیاسی پارٹیوں کے ضلعی و مرکزی کابینہ کے اراکین اور فرنٹ لائن کے عہدیداران اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر بچاؤ مہم میں مصروف نظر آئیں گے۔ یہی وہ افسران ہیں جن کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے، اور یہی لوگ سیاسی مفادات کے لباس میں مولانا ہدایت الرحمان کو مختلف القابات سے نواز رہے تھے کہ انہوں نے بارڈر کو برباد کیا اور وہ قوم کے دشمن ہیں۔ کیونکہ ہم نے غدار اور وفادار کے سرٹیفکیٹ ہر وقت اپنی جیب میں تاش کے پتوں کی طرح محفوظ رکھے ہیں، تاکہ جب بھی موقع ملے، اپنی سیاسی یا ذاتی مفاد کی جگہ پر انہیں استعمال کر سکیں۔ لیکن وقت ہر چیز کو ثابت کر دیتا ہے، جو آج مکران، بالخصوص پنجگور بارڈر پر واضح ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان کے احتجاج نے انہیں فائدہ پہنچایا یا نہیں، یہ الگ بحث ہے، لیکن انہوں نے مکران کے سیاسی لیڈروں اور ان کے کارکنوں کو برسرِ روزگار کر دیا، جو سرکاری ایجنٹ کے کارڈ ہولڈر بن چکے ہیں۔ وہی قوم پرست، جو خود کو لیڈر کہتے تھے، اور جو کل بے روزگار ہو کر چتکان بازار کی گلیوں میں کبھی سبزی منڈی تک بھی نہ بخشا کرتے تھے، آج ڈیزل کے ڈپو میں ریٹ معلوم کرنے سے فرصت نہیں پاتے۔ وہی لیڈر، جو قوم پرستی کے نعرے لگا رہے تھے، آج اقتدار میں رہ کر سرکاری و غیر سرکاری چیک پوسٹوں پر اپنے کارکنان کو پولیس اور لیویز کے ملبوسات میں بٹھا کر غریب کاروباری لوگوں سے پانچ سو، دو سو اور سو سو روپے کا شکرانہ لے رہے ہیں۔ یہی لوگ غریب عوام سے ووٹ بھی لیتے ہیں اور مختلف ذرائع سے چیک پوسٹوں پر بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تاریخ سے زیادہ بھیانک کوئی چیز نہیں، نہ دنیائے بقا میں اور نہ دنیائے فنا میں۔ جب بھی تاریخ کا ذکر آتا ہے، وقت اپنے پہلو میں سمیٹے ہوئے ہر چیز اور ہر کردار کو سبق کی طرح یاد دلا کر دہراتا ہے۔ جتنے بھی نظام کے کردار ہیں، وہ ایک نہ ایک دن زبان بن کر چلائیں گے۔ اگرچہ وہ حاکم کے خوف سے اسے سرِ عام نہیں کہیں گے، لیکن خود سے مخاطب ہو کر ضمیر کے آئینے میں ہر چہرے میں کئی سوال اور جوابات ضرور نمودار ہوں گے۔
مولانا ہدایت الرحمان کے احتجاج کا بنیادی نکتہ مکران کے سرحدی کاروبار میں سیکیورٹی فورسز کی مداخلت اور ان کی پالیسیاں تھیں، جو یہاں کے غریب عوام، ان کے مستقبل اور ان کے روزگار کے خلاف تھیں۔ حقیقت میں، ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر جدید دور کا ایک نیا “ضربُ المثل” بن چکا ہے، جو لغت میں شامل ہو چکا ہے۔ اسی ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر کی مخالفت کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے سخت موقف اپنایا اور روزگار کو شناختی کارڈ سے مشروط کرنے کی تحریک چلائی۔ اس تحریک میں مکران بھر میں، چاہے سمجھ بوجھ کے ساتھ یا بغیر سمجھے، تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں ان کی حمایت کی، کیونکہ بنیادی مسئلہ بلوچ سلوگن اور بلوچ حقِ حاکمیت کا تھا۔
بلوچستان میں اگر کوئی شخص اداروں کے سامنے کھڑا ہو کر انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے، تو بلوچ قوم اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ بلوچ قومی نفسیات ان پر گزرنے والے انتہائی بھیانک حالات کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ان کے بنیادی حقوق پر حملہ ہوتا ہے، وہ سبھی ایک ہو جاتے ہیں، کیونکہ یہ بارڈر ان کا ہے۔
جب مولانا ہدایت الرحمان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور قوت کو دیکھ کر سیاسی پارٹیوں نے اپنی بقا کو فنا کے قریب محسوس کیا، تو انہوں نے سمجھا کہ مری، بگٹی اور مینگل کے خلاف غداری کارڈ کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ یہ المیہ جب سیاسی قیادت کو سمجھ آیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ اگر شناختی کارڈ پر کاروبار کا نظام لایا گیا، تو دو بڑے نقصان ہوں گے: ایک، ان کی سیاسی موت؛ اور دوسرا، غریب عوام اپنے کاروبار میں مصروف ہو کر خود کفیل ہو جائیں گے۔ وہ دن بدن کاروباری بن کر وی آئی پی طرزِ زندگی اختیار کر لیں گے، جس کے نتیجے میں ہماری سیاست کا پردہ چاک ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا۔ تب سوال یہ اٹھا کہ زندہ باد، مردہ باد کے نعرے کون لگائے گا؟ دیواروں پر وال چاکنگ اور بیٹھکوں کی چوکیداری کون کرے گا؟ جلسے جلوسوں کے دوران عوام اگر بارڈر پر مشغول ہوں گے، تو جھوٹے نعروں کے جملے زیبِ دیوار کون کرے گا؟
اسی لیے سیاسی جماعتوں نے فوری طور پر ہواؤں کا رخ بدل دیا۔ اپنی سیاسی دکان بچانے کے لیے انہوں نے پردے میں رہ کر ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر کی حمایت شروع کر دی۔ گٹھ جوڑ کہیں اور سے بننے لگے، اور مولانا ہدایت الرحمان کو اس مسئلے سے دور کرنے کے لیے انہیں اداروں کا ایجنٹ قرار دیا جانے لگا۔ یہ کہا گیا کہ مولانا اداروں کے نمائندے ہیں اور چین-پاک دوستی کو تحفظ دینے اور دیگر معاملات کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ چونکہ ان کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے، جو ایک “بلوچ کُش جماعت” ہے، اس لیے انہیں متنازع بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہی حربہ ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے—کبھی مری، کبھی بگٹی، کبھی مینگل، اور کبھی دیگر کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے الزامات لگائے گئے۔ مصنوعی قوم پرست اور مصنوعی سردار بھی آتے رہے، لیکن تاریخ نے آخرکار مری، بگٹی اور مینگل کو واضح کر دیا کہ وہ کون تھے۔ لوگ بدل جاتے ہیں، مگر تاریخ کبھی اپنا چولا نہیں بدلتی۔
اسی سازش کے تحت مولانا ہدایت الرحمان اور قوم پرست پارٹیوں کے درمیان خلیج پیدا ہونے لگی۔ عوامی جدوجہد، جو براہِ راست عوام کے آزاد کاروبار کے حق میں تھی، سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگی۔ درحقیقت، یہی وہ مسئلہ تھا جس پر دشمن کو کام کرنے کی ضرورت تھی، مگر افسوس کہ ہمارے اپنے ہی لوگوں نے اسے اپنے ذاتی گروی رکھے ہوئے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر لیا۔
ضلعی انتظامیہ، جو ہمیشہ برسرِ اقتدار جماعت کی تابع فرمان رہی ہے، ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر کے حصول کے لیے بندر بانٹ کرانے کا سب سے مضبوط ذریعہ بن گئی۔ جب اداروں نے اس سسٹم کو ان کے حوالے کر دیا، تو لوٹ مار اور خرید و فروخت کا بازار گرم ہو گیا۔ چتکان بازار میں ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر مرچوں کے بھاؤ ریڑھیوں پر فروخت ہونے لگے۔ قوم پرست لیڈروں نے بھی اس سارے نظام کو ایک تباہی میں بدل کر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے مفاد کے نام کرنا ان کے لیے مزید فائدہ مند ثابت ہوا۔ اس صورتِ حال کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسے بیٹے کے رشتے کے لیے جانے والا باپ خود دلہن بن جائے۔ سرحدی کاروبار، جو کل غریب عوام کی روزی روٹی تھا، آج ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس میں “پیکجز” کے نئے نام متعارف کرائے گئے، اور عام شخص کے ساتھ ساتھ سماج کے مفرور لوگ بھی بغیر ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر کے کاروباری شخصیت بن گئے۔ جن کے پاس گاڑی نہ ہو، مگر اگر وہ کسی سیاسی شخصیت کے کیمپ کا حصہ ہو، تو وہ بھی ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر کا حقدار بن گیا۔
جب کاروبار کی نوعیت کو بھانپ کر انہی نام نہاد سیاسی لٹیروں نے اپنے رشتہ داروں کے نام پر سینکڑوں ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر حاصل کیے، تو ان کا مقصد غریب عوام کے کاروبار کو آسان بنانا نہیں تھا، بلکہ اس پر قبضہ کرنا تھا۔ انہی مداریوں نے غریب عوام کے کاروبار پر قبضہ کر کے خود تیل کے کاروباری بن گئے۔ آج وہی تیل کے کاروبار سے روزگار حاصل کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج وہی مولانا ہدایت الرحمان، جنہیں کل ایجنٹ اور غدار کہا جا رہا تھا، صوبائی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے وزیروں اور سیاسی جماعتوں کے زیرِ عتاب ہیں۔ اور جن لوگوں نے کل ایجنٹ اور غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے تھے، وہی آج انہی اداروں سے پیکج کے طلبگار بنے ہوئے ہیں۔ وہی لوگ آج ان کے ہواری ہیں، اور یہی التجا کر رہے ہیں کہ ان کے ای ٹیگ، ٹوکن اور اسٹیکر بلاک نہ کیے جائیں۔
لیکن مولانا ہدایت الرحمان آج بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں۔ ایجنٹ کہہ کر کون بے روزگار ہوا؟ اور ایجنٹ بن کر کون برسرِ روزگار ہو گیا؟ وقت نے یہ واضح کر دیا ہے۔ ایران بارڈر پر کس کی ویری فیکیشن ہو رہی ہے، یہ آج کسی سے چھپا نہیں۔ بلوچ قوم سیاسی پارٹیوں کے سبز باغ اور جھوٹے سرمچاروں کے ذاتی مفادات سے بخوبی واقف ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جو لوگ پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کے نام پر گئے، وہ درحقیقت اپنے گھروں کے دروازے سے باہر تک نہیں نکل سکتے، چہ جائیکہ وہ پہاڑوں میں جنگ لڑیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔