گوریلاجنگ ۔ ماہین بلوچ

411

گوریلاجنگ

تحریر: ماہین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

جب ایک بالادست طاقت ایک محکوم قوم پر پہ زور قبضہ کرتی ہے تو اس کی پہلی کوشش یہی رہتی ہے کہ اس قوم یا ملک کو نوآبادیای بنایا جائے ۔ نوآبادی بنانے کے بعد وہ اس ملک میں ساحل وسائل کی لوٹ ماراور اور محکوم پرتشدد شروع کرتے ہیں ۔ اس تشدد کی اشکال مخلتف طریقے میں ہورہی ہوتی ہے جہاں محکوموں کے لئے سانس لینا بھی محال بن جاتا ہے ۔ اس ملک کے پیداور یعنی ذرائع پیداور قدرتی وسائل کو دوسرے ملکوں میں لے جاکر خود کو امیر سے امیر تر اور محکوم قوم کو استحصال کی طرف لے جاتے ہیں اسی دوران وہ قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کےلیے دوسرے تمام طریقہ میں ناکام رہتا ہےتو وہ گوریلاجنگ کا راستہ اختیار کرتا ہے . قومی آزادی کےلیے مسلح جدوجہد میں گوریلاجنگ ایک اہم عنصر ہے ۔

گوریلاجنگ وہ طریقہ کار جنگ ہےجو عام عوام اپنی زمینی حقائق کو اپنے فائدہ میں رکھ کر شروع کرتی ہیں جو ایک مکمل تنظیمی ڈسپلن کے ماتحت ہوتی ہے یہاں عام عوام کے معنی یہی ہے کہ گوریلا جنگ میں مقامی آبادی جنگ کے ساتھ جڑے رہتے ہیں ۔ اور اپنی سرزمیں کی ہر پہلو کی جانچ و پڑتال کے بعد اپنے سے مضبوط تر دشمن کے سامنے اعلان جنگ کرتے ہے ۔

گوریلاجنگ قومی تحریک آزادی کا کُل نہیں بلکہ مزاحمت کا ایک اہم جز ہے ہم یوں کہہ سکتےہیں کہ گوریلاجنگ مقامی نوآبادی کی آرمی ہے جو عام عوام پر مشتمل ہوتی ہے جو قبصہ گیر کی آرمی سے اپنی بقاء اور شناخت کی جنگ لڑتی ہے ۔ اگر ہم قبصہ گیر کا موازنہ محکوم قوم سے کرے تو ہمیں اسلحہ ، اکانومی،نفیساتی اور دیگر پہلو سے مضبوط تر دیکھنے کو ملے گا مگر گوریلا جنگ کی خاصیت ہی محکوموں کو آزادی تک لے جاتی ہیں ۔ کیونکہ گوریلا جنگ کا اصول واحد یہی ہے کہ ” ماو اور بھاگ جاو ” ۔ کیونکہ قومی تحریک کے ابتداء خود سے طاقتور دشمن کا سامنا باقائدہ ایک منظم طریقہ کار سے جاتی ہیں کیونکہ اس وقت محکوم قوم کے لئے وسائل انتہاہی محدود ہوتے ہے ۔ لہذا گوریلا اپنی منظم اصول اور ڈسپلن کے بنیاد پر دشمن پر اپنے گہرے اثرات چھاپ دیتا ہے ۔

گوریلاجنگ کی کامیابی کی اہم سبب عام عوام کا ساتھ ہے کیونکہ گوریلاجنگ اپنے خاص اصول، نظم وضبط،رابطہ کاری، لیڈرشپ کی وجہ سے فوجی جنگ سے مختلف ہوتاہے۔ دنیامیں اکثر نوآبادیات نے اپنی آزادی گوریلاجنگ کے زریعے حاصل کی ہیں اس لئے کہ گوریلاجنگ ایک فطری عمل نہیں ہے کہ خود باخود ہوجاتا ہے بلکہ گوریلاجنگ قبضہ گیر کے ظلم اور جبر سے تنگ آکر مزاحمتی تنظیم اپناتے ہیں ۔
گوریلاجنگ کے بارے میں جنگی لٹریچر بے شمار ہیں جہاں گوریلا طریقہ کار کے بارے میں مختلف مصنف نے رقمطراز کی ہے آج ہم تین مصنف کے گوریلا جنگ کے متعلق نظریات کو اپنے بحث مباحثہ کا حصہ بنائے گے ۔

1) ارنسٹوشےگویرا کے خیالات گوریلاجنگ کے بارے میں :

ڈاکٹرارنسٹو شےگویرا اپنےکتاب گوریلاجنگ میں گوریلاجنگ کے اصولوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گوریلا سپاہی صرف مارو اور چھپ جاو کے اصول پر ایمان رکھتےہیں ۔

گوریلاجنگ کے لیے رات زیادہ مناسب ہے کیونکہ رات کے اندر میں گوریلا سپاہی کہی بھی چھپ سکتا ہے آپ یوں سمجھے کہ دن کےوقت علاقوں میں فوج کی حکومت ہوتی ہےاور رات کےوقت گوریلا سپاہی کی بادشاہی رہتی ہیں۔گوریلا سپاہی حملہ سے پہلےاپنے لیے چھپنے کی جگہ تلاش کرتا ہےاور باحفاظت آکر دشمن پرحملہ کرکے محفوظ راستےسےچلایاجاتا ہے۔ گوریلاسپاہی ہروقت جنگ کے لیے تیار ہوتا ہے گوریلاسپاہی کویہ خیال رہتا ہے کہ وہ دشمن کے گھیرے میں نہ آئے کیونکہ دشمن کے گھیرےمیں آنے کا مطلب موت ہےگوریلاسپاہی کو تیز اور چست ہوتا ہے ۔ عام آدمی کے حساب سےآس میں درد بھوک پیاس اور بیماری کو برداشت کرنے کی ہمت زیادہ ہوتی ہے اور زخموں کو بغیر کسی طبی امداد کی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گوریلا جنگ کے اپنے نظم و ضبط ہوتے ہیں جن پر ہر گوریلاسپاہی عمل کرتاہے نظم وضبط کو توڑنے کی صورت میں ان کو سخت سے سخت سزا بھی دی جاتی ہے ۔ چی نظم وضبط کے بارے میں مثال دیتے ہوئےسمجھاتے ہے کہ جب میں رات کے وقت کیمپ میں دورہ پر تھا تو تب میں نے دیکھا کہ گشت کرنے ولا سپاہی سورہا ہے تو میں نے اسے نظم ضبط توڑنےکی صورت میں اس کے گن کا رائفل نکل لیا اور کہا کہ یہ رائفل تب تمہیں ملے گا جب تم اسے جنگ کے وقت حاصل کروگے ۔ کچھ دنوں بعد وہی سپاہی جنگ میں زخمی ہوگیا اور زخمی حالت میں اپنے لیے رافل حاصل کیا ۔گوریلاسپاہی کےپاس زیادہ اسلحے کی بھرمار نہیں ہوتی بلکہ وہ دشمن کو مارکر اس کا اسلحہ اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے ۔ گوریلاسپاہی ایک سپاہی کے علاوہ ایک رہنما بھی ہوتا ہے جو دوران جنگ اپنی رہنمائی خودکرنے کی قابلیت رکھتا ہےاور یہی فرق جو گوریلا سپاہی کو ایک فوجی سے ممتاز کرتا ہے ۔

گوریلاجنگ کے لیےسب سے بہتر علاقے دیہی یعنی دیہات کے علاقے ہیں کیونکہ وہاں کی جغرافی ان کی جنگی حکمت عملی کے عین مطابق ہے ۔

گوریلا سپاہی کو اپنےعلاقے میں جہاں وہ تعینات ہے اُس علاقے کےہرراستےکا علم ہونا چاہیےاور ہرراستےپر نظر رکھنی چاہیے اسکے ساتھ ساتھ گوریلاسپاہی کو علاقےکے عام عوام کواپنے سپورٹ میں لینا ہوگا کہ وہ دوران جنگ گوریلاسپاہی کو امداد فراہم کرےاور گوریلاجنگ کومعاشرے میں پروپیگیٹ کرسگے۔

2) گوریلاجنگ کے بارے میں کومےنکرومہ کے خیالات :

کوامےنکرومہ گوریلاجنگ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مسلح جدوجہد کرنے والے گوریلا ایک منظم فورس ہیں جنہیں جنگ کی بنیادی تربیت انکی کمپیوں میں دی جاتی ہے اورانہیں لڑائی کے جدیدطریقےسکھائے جاتے ہیں۔سب سے پہلے جو نئے سپاہی گوریلا تنظیم میں آنا چاہئے ہیں ان کے بارے میں معلومات کرتے ہیں جسےوہ کس علاقےکا ہے اورکونسی خاندان سے وابستگی رکھتا ہے معلومات سی ہونے کی صورت میں انہیںتنظیم میں آنے کی اجازت ملتی ہےاوران کی تربیت شروع ہوجاتی ہے گوریلاسپاہی کو کیمپوں میں گوریلاجنگ کے نت نئے طریقہ کار پڑھائے جاتے ہے ۔ جیسے کہ نقشہ تیارکرنا و اسے پڑھنا ، جاسوسی کرنا ، پیغامات کو خفیہ رکھنا اورخفیہ پیغام کو سمجھنا اپنے اور دیگرعلاقوں کے بارے میں معلومات حاصل اکھٹا کرنا ، علاقوں میں متبادل راستے، ندیاں،جنگلات،پہاڑ، اور وہ مقامی باشندے جو انقلابی جدوجہد کے ہمدردہیں ، کون دشمن ہیں اور اس کے علاوہ اپنےساتھوں سےاور دوسرے یونٹ سے رابطہ رکھنے کے طریقے کار پر بھی تفصیل سکھایا جاتا ہے ۔

گوریلا آپریشن کے دوران اپنے رہنمااور ساتھی سے رابطہ کاری کے طریقے ابتدائی طبی امداد، جنگی ہتھیار چلانا ،بم بنانا،گاڑی چلانا،ریڈیو ٹیلی گراف کے کورس کی تربیت انہیں تربیتی کمپیوں میں دی جاتی ہے ۔گوریلا تنظیم میں بھرتی ہونے کا طریقہ مرد اور خواتین رضاکار کےلیے یکساں ہوتاہے گوریلا یونٹ میں عام طور پر دس سے پندرہ افراد پر مشتمل ہوتاہے افراد کی تعداد لڑاہی اور مقامی علاقے کی حالات پر منحصر کرتی ہے۔ہر گوریلا گروپ یا یونٹ کی سربراہی ایک لیڈر کرتا ہے جو گوریلاجنگ کے اصولوں کا ماہر ہوتاہے ایماندار اورانصاف کرنے والا ہوتاہے اور ایمرجنسی کی صورت میں رہنمائی کے لیے سوچنے میں وقت ضائع نہیں کرنے والا بہادر ہوتا ہے ۔کوامے نکرومہ کے مطابق گوریلا جنگ میں عورتوں کا بھی موثر کردار رہتا ہے جیسے کہ جنگ میں جاسوسی کرنا ، خوراک لانا، زخمی سپاہیوں کی طبی امداد کرنا اور جنگ کے دوران گوریلاسپاہی کو اپنے گھروں میں پناہ رہنے جیسے سینکڑوں اقدام ۔ عورتوں کےلیے جاسوسی کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ عورتیں کہی بھی آ سکتے ہے اور جاہ بھی سکتے ہیں اور کوئی ان پر کوئی بلاوجہ شک نہیں کرسکتا ہے جاسوسی کے آلہ سمیت جنگی سروسامان بھی عورتیں گھر میں بیٹھ کر بناسکتی ہے جیسے خودکار ہتھیار ،بم، اسلحہ ، ضرورت کے وقت اسلحہ خانہ اور فوجی کمپیوں میں خودکش حملہ کے سامان ایسے تمام کام وہ بروقت اپنے گھر میں کرسکتے ہے اسکے علاوہ جنگی پیغامات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاسکتے ہیں اور سب سے اہم زمہ واری جنگ کے لئے موبلائزیشن کرسکتے ہیں ماسس کو جنگ کی اہمیت سمجھاکر انہیں جنگ کے جانب راغب کرسکتے ہے ۔

3) ماوزےتنگ کے خیالات گوریلاجنگ کے بارے میں:

ماوزے تنگ جوکہ چینی انقلاب کے تھے گوریلاجنگ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گوریلاجنگ باقی جنگوں سے مختلف ہیں لہذا اس کے اپنے اصول ہوتے ہے جن میں بنیادی اصول خودکو دشمن سے محفوظ رکھنا اور دشمن کی طاقت کو تباہ کرنا ہے کیونکہ دشمن کو ہر وقت دھوکے میں رکھنا جیسا کہ دکھانا کچھ اور ہے اور کرنا کچھ اور ہے ۔

ماو اس بات پر زور دیتے ہے کہ گوریلاجنگ کا ایک خاص سیاسی مقصد ہونا چاہیے بغیر کسی سیاسی مقصد کے گوریلاجنگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے جسے چین کے گوریلاجنگ کا مقصد جاپان سے آزادی ہے اسی ہی ویت نامی گوریلوں کا مقصد امریکہ سے آزادی تھا ۔بغیر سیاسی مقصد کے گوریلاجنگ کرنے والے گوریلاسپاہی مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جلد ہی اپنے اصل مقصد سے بیگانہ ہوجاتےہیں۔گوریلاجنگ میں لیڈرلیڈرشپ کا محکم کردار ہوتا ہے کیونکہ لیڈر جو گوریلاسپاہیون کو لیڈر کرتاہے یونٹوں میں نظم و ضبط کو برقرار رکھتا ہے کیونکہ نظم و ضبط کے بغیر گوریلاجنگ کی کامیابی ناممکن ہے اور یونٹوں کو منظم کرتی ہے ۔

لیڈر جوکہ اعلی تعیلیم یافتہ اور گوریلاجنگ کے اصولوں کے بارے میں مکمل جانکاری رکھتا ہے اور وہ اپنےعوام کے دل میں اسکی حیثیت رول ماڈل کی ہوتی ہے جوکہ اس عوامی ہمدرد ہوتا ہے ۔
جو دشمن کے ہر پروپنگنڈے کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور سب سے نمایاں کہ دشمن کو ہروقت اس کا خوف رہتا ہے ۔
لیڈر کا ہی کام ہے کہ ہر سپاہی کو اس کا کام سمجھاتا ہے اگر دوسری صورت جب ایک لیڈرگوریلا یونٹوں کو منظم نہیں کرپاتا تو منتشر ہونے کی وجہ سے انکی گوریلاجنگ کمزور رہ جاتی ہیں۔گوریلاجنگ کی کمزور کی اہم اسباب میں ایک لیڈرشپ کا مضبوط نہ ہونا ہوتا ہے کیونکہ مضبوط لیڈرشپ کے مضبوط نہ ہونے کی وجہ سپاہی سمیت پوری جنگ بے ترتیبی کا شکار ہوجاتا ہے لہذا لیڈر کوچاہیے کہ وہ سپاہیوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھائے تو سپاہی اپنی آخری سانس تک اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار ہونگے ۔

گوریلاسپاہی کاکام دشمن کو اپنے علاقے میں آنے سے روکناہے اور اگر دشمن علاقے میں ہے بصورت اس کا مقابلہ کرنا اورعلاقےمیں دشمن کی نقل و حمل کو روکنا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب گوریلاجنگ کا رہنما اس قابل ہو کہ وہ ایسے گوریلاسپاہی تیار کرہے جو اس قابل ہوکہ دشمن کو روکے۔

گوریلا رہنما ایک ایسی مسلح قوت تیارکرنے میں کامیاب ہوگا تب وہ دشمن پر زورآورہو سکے گا۔گوریلاجنگ افرادوں کی تعداد پر انحصار نہیں کرتابلکہ ان کے گوریلا طریقہ کار اور لیڈرشپ پرکرتاہے۔ ماو کے مطابق گوریلاسپاہی کو چاہیے کہ وہ اپنے گوریلا اڑوں کو دشمن سے چھپا کر رکھے اور اس وقت تک اپنےاڈوں کو نہیں چھوڑنا جب تک آپ کے سارے راستے دشمن بند نہ کرے۔اور دشمن کو شکست دینے کےلیے عوام کا ساتھ بہت ضروری ہے لہذا اپنی لئے عوامی حمایت کو جاری رکھنا نہایت لازمی ہیں ۔

درج زیل پہلے ہی ہم گوریلاجنگ کے بارےمیں اس کی تاریخ اور طریقہ کار پر بحث کرچکے ہیں اور تین مخلتف نقطہ نظر اور خیالات گوریلا جنگ کے متعلق پڑھ سکے ہے ۔ جیسے چی گورا نے اپنے کتاب میں زیادہ تر گوریلاجنگ کے طریقہ کار کے اوپر زور دیاہے ۔

کوامےنکرومہ نے زیادہ ترگوریلا لشکرکی تربیت کے متعلق بات کی ہے اور ماوزے تنگ نے زیادہ تر گوریلا رہنما، گوریلاجنگ کی سیاسی مقصد اور گوریلا تنظیموں کے بارے میں رقمطراز کی ہے ۔ ہم ان تینوں نظریات کو ملاکر بلوچ قومی تحریک میں ہونے والے گوریلاجنگ کے متعلق قلم آزمائی کرے گے ۔بلوچ قوم جوکہ بلوچستان میں موجودہے۔بلوچستان اپنی جیوگرافی اورنیم گرم سمندرکی وجہ سے ہمیشہ سے پوری دنیا کے نظروں میں رہا ہے۔دنیامیں جتنی بھی طاقتور قوتیں آئی ہیں ان کی مسلسل یہی کوشش رہی ہے کہ بلوچستان پر قبضہ کرکے اپنی طاقت کو زیادہ تر مضبوط کرہے۔لیکن بلوچ قوم نے ہروقت ان طاقتورں کا بہادری سے مقابلہ کیاہےاور اپنی سرزمین کی حفاظت کی ہے۔جب بھی کسی طاقت یا دوسری قوم نے بلوچ کی سرزمین پرحملہ کیا توبلوچ نے ہمیشہ سے مزاحمت کا راستہ اختیارکیاہے۔یہ مزاحمتی جنگیں تاہنوز جاری و ساری ہیں حالانکہ ان کی شکلیں تبدیل ہوتی رہی ہے ۔ ان ہی طریقہ کار میں گوریلا جنگ ہی ہیں جو برسوں سے بلوچ قوم اپناتی چلی آرہی ہیں ۔نواب اکبر خان بگٹی کے مطابق بالاچ گورگیج بلوچستان کا اول گوریلا تھا ۔ اٹھارویں صدی میں بالاچ گورگیز نے گوریلاجنگ کا راستہ اختیارکیا۔ اپنے دشمن سرداربیورغ کے خلاف ان کی لڑائی کی وجہ باہوٹی تھی جب سمی نے سردار بیورغ سے اپنی مال اور مویشی کی حفاظت کےلیے میر دودا گورگیج کے ہاں پناہ لیااور ان کی باہوٹ بنی ۔ جب اس بات کا پتہ سردار بیورغ کو چلا تو بیورغ نے سمی کے مویشیوں پر حملہ کیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ بیورغ کے حملہ کی خبر دودا کو چلی تو میردودا نے اپنے باہوٹ کی حفاظت کےلیےسردار بیورغ پرحملہ کیا لیکن تعداد کم ہونےکی صورت میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بلاچ گورگیج جوکہ میردودا کا چھوٹابھائی تھا نے اپنے بھائی کےقتل کا بدلہ لینے کےلیے گوریلاجنگ کاراستہ اختیارکیا۔کہیں سالوں کے محنت کے بعد بلاچ گورگیج گوریلاجنگ کے اصولوں کا ماہر بنا۔بلاچ گورگیز رات کی تاریکی میں دشمن پرحملہ کرتا اوردن کو سیدھا سادہ رہتا ۔

بلاچ نے تنہا پورےقبیلے کو شکست دےکر سرداربیورغ کو قتل کیا۔
دراصل بالاچ نے اپنے بلوچی دودمان اور کوڈ آف کنڈکٹ کے خاطر یہ راہ اپنایا۔

1839ء کے قبضہ کے بعد بلوچوں نے برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کیا تو ان کی موثر ہتھیار تھی بعد میں جب جنگ عظیم دوم کےبعد انگریز بلوچستان سے نکلا توبلوچستان ایک آزادملک کی حیثیت میں بحال ہوا ۔ مگر نو ماہ بعد ہی برطانیہ کے آشرباد سے پاکستان نے دوبارہ بلوچ سرزمین پر قبضہ کردیا ۔ جلد ہی مزاحمتی تاریخ کے سلسلے کو جاری کرتے ہوئے پرنس عبدالکریم نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا ۔ 1947 کے بعدمسلح جدوجہد کاآغاز سب سے پہلے عبدا لکریم نے کیا ۔

اپریل 1948 کو آپ اپنےساتھی میر محمدحسین عنقا، میر عبدالوحد کرد اور سینکڑوں ساتھیوں سمیت پہاڑوں پر گئے مگر انہیں کوئی خاص امداد نہ ملی ۔ مگر پاکستانی حکومت کے جانب سے پرنس عبدالکریم کو قران پاک کی قسم دیکر پہاڑوں سے نیچے لاکر جیل میں ڈال دیا ۔

عبدالکریم کے بعداس ریاست کے ظلم اورجبرسے تنگ آکر بابا نوروز نےگوریلاجنگ کا فیصلہ کیا آپ نے چھوٹےچھوٹے چھاپہ مارا لشکر تیار کیےاور ان کو ملا کر ایک بڑا گوریلا لشکرتیارکیا اورریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا۔جس کے بعد ریاست نے جگہ جگہ چیک پوسٹ قائم کرکے لوگوں پرحملہ کرناشروع کیا جس کے ردعمل میں عوام نے ریاست کے خلاف گوریلاجنگ کے طریقہ کار میں مزید شدت پیدا کی ۔
ریاست نے نوروز خان کے خلاف کئی کاروائی کی لیکن پکڑنے میں ناکام رہی تو ریاست نے ایک مرتبہ پھر پہاڑوں سے قران مجید کا کاسہارا لیا اور آپ کو قرآن مجید کی قسم دے کر اپنے سات سو ساتھیوں سمیت پہاڑوں سےاتھاردیا اور اپنے وعدےکی خلاف ورزی کرکے انہیں جیل میں ڈال کر ساتھیوں کو پھانسی دی اور نوروز خود جیل ہی میں شہیدء ہوگے۔بابو نوروز کے بعدبہت سے ایسے گوریلا رہنما رہے جنہوں نےبلوچوں کے گوریلاجنگ کی شدت کو بڑھاوا دی ہے ۔ جن میں شیروف مری ، نواب اکبر بگٹی صاحب اوربلاچ مری اور استاد اسلم قابل زکرشامل ہیں۔نواب اکبرخان بگٹی نے باھوٹ کی عزت آبرو ہونے پر گوریلا جنگ میں شامل ہوئے اور زندگی کے آخری لمحات میں بلوچستان کی آزادی کے خاطر دشمن کا سامنا کرتے رہے مگر کچھ عرصہ کے بعد پہاڑوں پر شدید بمباری کرکے آپ کو شہیدء کردیا۔ نواب اکبر بگٹی کے شہید ہونے کے بعد جنگ نے مزید شدت اختیار کرلی اور ریاست کے جڑوں کو مزید کوکھلا کردیا گیا اور جو بچی کچھی کسر رہے گی تھی اُسے بلاچ مری نے پوراکردیا۔ بلاچ مری جوکہ تعارف کے محتاج نہیں کیونکہ بلاچ مری اور اس کے قربانی کو بلوچستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔

نواب خیر بخش مری کہتے ہیں کہ اگر بلوچ اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے پہلے اپنے دشمن کو مارنا ہوگا اس سے پہلے کہ دشمن بلوچ کو ختم کرے۔اسی سوچ اور فکر کے مطابق بلاچ مری نے پاکستان کے خلاف گوریلاجنگ کیا ۔ اورخود گوریلاجنگ کے دوران شہید ہوگئے۔آپ ایک اچھے گوریلا سپاہی کے علاوہ ایک اچھے گوریلا رہنمااور مختلف ہتھیار چلانے کے ماہرتھے۔آپ نے گوریلا لشکرتیارکیااور اسی لشکر کی رہنمائی کرتے ہوئے بلوچ تحریک آزادی کے جڑوں کو مستحکم کیا ۔

حرف آخر !
آج اس دود جدید میں بلوچ قومی تحریک میں گوریلا جنگ ایک موثر ہتھیار کی مانند دشمن کو نقصان پہنچارہی ہیں ۔ تحریک آزادی میں شامل مسلح تنظیمیں جیساکہ بی ایل اے ، بی ایل ایف ، بی آر جی و دیگر تنظیموں کے علاوہ ایک اتحاد تنظیم براس کی شکل میں موجود ہے جو گوریلا جدید طریقہ کار کے بنیاد پر اپنی سرزمین کی آزادی میں اپنا حصہ ڈال رہے ۔

تحریک آزادی کے پانچویں لہر میں انہیں تنظیمیوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کرکے جدید طرز کار اپنا کر دشمن کو اس قدر مجبور کردیاکہ وہ بلوچ سرمچاروں کے حملوں سے خوفزدہ رہے ۔دراصل گوریلا جنگ کے اہم اصول جیساکہ اپنی سرزمین کے ہر رگ رگ سے واقفیت و عام عوام کا ساتھ ہونا ، جنگ آزادی میں خواتیں کی بڑی تعداد کا شامل ہونا کے فائدہ بلوچ جنگ کو پہنچ رہے ۔

اگرہم بلوچ قومی تحریک میں ان گوریلاسپاہیوں کی تربیتی معیار کو جانچے تو ہمیں یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ نوجوان بے شعور نہیں ہے اور انہیں گوریلا جنگ کے سیاسی مقصد کا ادراک ہے ۔ گوریلا رہنماوں کے تقاریر اور تصانیف ہر تحقیق کی جائے تو ہمیں شعور کے انتہاء پر بروسہ ہوجائے گا ۔ یہی بات بلوچستان میں تحریک آزادی میں گوریلا تنظیموں کے سپاہی کو ممتاز ہے کہ اس کے زیادہ تر سپاہی جدید دور کے تقاضوں سے آشنا ہے جوکہ گوریلا اصولوں کو بہتر جانتے ہے ۔ انہیں پالیسیوں کی وجہ سے آج جوک درجوک بلوچ نوجوان گوریلا جنگ میں بھرتی ہوتے جارہے ہے ۔

ان گوریلا تنظیموں کے اندر جدید طریقہ کار اور مخلتف یونٹوں کی تشکیل اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ بلوچ اب طویل جنگ کے حق میں نہیں بلکہ اس جنگ کو فیصلہ کن رخ میں تبدیل کرنے کی خاصیت رکھتے ہے ۔

آخر میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوگا کہ یہ تحریک عوام کا ہے عوام کی خوشحالی اور خودمختاری کاہے اور یہ تحریک اپنے ہر بلوچ فرزند سے چاہتی ہے کہ وہ اس تحریک اور جنگ میں شامل ہو کر اپنا قومی فرض پورا کرے ۔ اور اپنے آنے والے نسل کو ایک خوشحالی اور پر امن معاشرہ فراہم کرے جہاں نہ ظلم کا وجود رہے اور نہ ہی کوئی طاقتور طبقہ موجود رہے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہر بلوچ بندوق اٹھاکرکے ریاست کے ظلم اورجبر کے خلاف جنگ میں حصہ بنےگے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔