گواڑخی یادیں
تحریر: دینار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کامریڈ… کیا کبھی آپ نے ایک جنگجو کو آخری بار رخصت ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ نے ان کے آخری الفاظ سنے ہیں؟ ان کے تاثرات محسوس کیے ہیں؟ ان کے چہرے کی چمک، ان کی فلسفیانہ باتیں، ان کی آنکھوں میں دشمن کے لیے نفرت، ان کا چلتن سے بلند حوصلہ، “رخصت اف اواران سنگت” کہہ کر میدانِ کارزار میں اترنا— کیا میں اب بھی اپنے بلوچ ہونے پر فخر نہ کروں؟
اور وہ ماں، جسے صرف اتنا پتا ہوتا ہے کہ میرا لختِ جگر اپنی موت کا فیصلہ خود کرے گا، ایک گولی جو اس نے اپنی جیب میں محفوظ کرلی ہے، جسے آخری وقت استعمال کرکے کلمۂ شہادت خشک لبوں سے ادا کرے گا اور فلسفۂ امیر کو زندہ رکھے گا… مگر کب؟ کہاں؟ کیونکر؟ یہ تو اس ماں کو بھی نہیں معلوم۔
شاری بلوچ، جو ہر وقت یہی سوال کرتی تھی کہ زندگی کیا ہے؟ اور زمین پر ایک انسان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ پھر وہ کہتی تھی کہ یہ کائنات اتنی وسیع ہے کہ ہر طرف پھیلتی جا رہی ہے، اور یہ وہی کائنات ہے جسے ہم بس اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور دور سے اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ جو ہمارے مشاہدے سے دور ہے، شاید وہ کائنات اس سے بھی بڑی ہو۔ اتنی وسیع کائنات میں ہمارا مقام اور مقصدِ حیات کیا ہے؟ ان ہی سوالوں میں شاری اکثر گم رہتی تھی، لیکن جب وہ خود نشیب و فراز سے گزر کر فدائی کے فیصلے تک پہنچتی ہے، تو وہ مکمل طور پر ایک نئی شخصیت میں ڈھل جاتی ہے۔ اس فیصلے سے اس کے روح و وجود میں ایک سکون پیدا ہوتا ہے، اور ہر طرف شاری میں ایک مطمئن زندگی نظر آتی ہے، جو اس کی رنگت اور روح سے صاف ظاہر ہوتی تھی۔
بلوچ ماؤں نے ایسے بہادر سپوت بھی پیدا کیے ہیں جو نہ تختۂ دار سے خائف تھے، نہ زندان کی دیواروں سے ڈرتے تھے۔ وہ تو صرف ظلم کی رات اور جہل کے اندھیرے کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ ظالم کے سامنے لب سی کر چپ رہنے کے بجائے موت کو ترجیح دینے والے جانثارِ وطن تھے۔ کیسے لوگ تھے وہ جو اس حقیقت پر یقین رکھتے تھے کہ آزادی پرخطر راہوں کی پُرخطر پگڈنڈیوں سے گزر کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے، اور وہ اس امر پر بھی یقین رکھتے تھے کہ جب تک انقلاب کی راہ میں لہو کا نذرانہ پیش نہ کیا جائے، تب تک انقلاب کا حصول ناممکن ہے۔
کامریڈ شہید بارگ کے منہ سے اکثر یہ الفاظ سننے کو ملتے تھے کہ “میری جدوجہد کے بیس دن کی زندگی ان بیس سالوں سے بہتر ہیں، جو میں محض مشکل حالات کے ٹلنے کا انتظار کرتے گزار دوں۔” وہ ہمیشہ مشکل راستہ اپنانے کو ترجیح دیتے تھے۔ پھر زیبلا دھرتی کا یہ عظیم سپوت خضدار تراسانی کے مقام پر دشمن سے دوبدو لڑائی میں دشمن کو شکست دینے کے بعد اپنی جیب سے آخری گولی نکالتا ہے، اسے چومتا ہے، میگزین میں ڈال کر خود اپنے حلق میں اتار لیتا ہے، اور ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے۔ کامریڈ، یہ سچ ہے اور میں اس سچ سے کبھی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ خلا صدیوں تک پُر نہیں ہو سکتا۔
کامریڈ… ضیا!
ایک ایسا نام جسے سنے ہوئے سالوں ہو چکے، ایک ایسا چہرہ جسے دیکھے عرصہ گزر چکا، ایک ایسی آواز جسے سننے کے لیے کان ترس گئے ہیں۔ یاد ہے تو صرف ایک ہی لفظ— “ضیا”۔ اور اس لفظ کو جتنا محدود سمجھ سکا، بس اتنا ہی سمجھ سکا کہ ضیا کا مطلب ہی ضیا ہے— جس کی روشنی محسوس کی جا سکتی ہے، جس کی چمک سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، جس کی حرارت سے راحت مل سکتی ہے، اور جس کے رنگ سے یہ بے رنگ دنیا رنگین ہو سکتی ہے، مگر جسے مکمل جاننا، سمجھنا، اور حاصل کرنا کسی کے بس میں نہیں۔
“بشہ سنگت! نن دشمن نا گھیرہ ٹی بسونن…”
“اٹھو سنگت! ہم دشمن کے گھیرے میں ہیں!”
کامریڈ، جب یہ الفاظ کسی کیمپ میں گونجتے ہیں تو اس وقت ہمارے بہادروں کے تاثرات کیا ہوتے ہیں؟ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ان تاثرات کو کوئی بھی بیان نہیں کر سکتا، جیسے کئی گھنٹوں سے شکار کے منتظر ایک شیر کو دور سے ہرن نظر آ رہا ہو۔
کامریڈ، کبھی زہری جاتا ہوں تو دل کرتا ہے کہ بلبل سے پہلے تراسانی کی کسی پہاڑی چوٹی پر بیٹھ کر دیر تک ہوا میں رچی شہید بارگ، امیرجان، اور دلجان کی خوشبو کو سونگھتا رہوں۔
خضدار کے ایک دور دراز گاؤں، مولا، سے تعلق رکھنے والا یاسر جب گواڑخی شکل میں خضدار میں نمودار ہوتا ہے تو پورے خضدار کو سچائی کی طرف راغب کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ عوام کو شعور کا اصل مقصد سکھاتا ہے، عوام کے ساتھ ساتھ تنظیم کے لیے بے شمار خدمات انجام دیتا ہے، اور پھر بغاوت کا راستہ چن کر پہاڑی گواڑخوں کے ساتھ ہم گام ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ پھر بھوک، پیاس، سردی، گرمی، دھوپ، بارش— نہ جانے کن کن اذیتوں کو برداشت کرتا ہوا ناگاہوں کے پہاڑوں سے لے کر بولان تک پہنچتا ہے۔ پھر شور پارود، قلات سے لے کر نوشکی، ولی تنگی، شعبان، درہ بولان، اور ہیروف تک ہر محاذ پر بہادری دکھاتا ہے۔ اور پھر ایک دن اس کے وطن پر نذر ہونے کی خبر آتی ہے۔ کامریڈ، یہ سفر اب رکنے والا نہیں! اب ہر بندے کو یاسر بننا ہوگا، موت کو گلے لگانا ہوگا، وطن کے لیے، بزگ بلوچ قوم کے لیے۔
کامریڈ… بلوچستان میں شہید ہونے والے لہو نے آزادی کے چراغ کو روشن کیا ہے، کیونکہ آزادی کا چراغ تیل سے نہیں، لہو سے جلتا ہے۔ بلوچ قوم کے عظیم فرزندوں نے بلوچستان کی آزادی کے لیے اپنا پاک لہو بہا کر قوم کے با غیرت عوام کو بیدار کیا۔ یہی ان شہیدوں کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ پوری قوم قابض قوتوں کے خلاف دیوار کی طرح کھڑی ہے۔
دشمن جتنا زیادہ ظلم کرتا ہے، جتنی زیادہ لاشیں گراتا ہے، نفرت اتنی ہی بڑھتی ہے۔ اور جب نفرت بڑھ جاتی ہے تو یہ فطری عمل ہے کہ انسان کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔
کامریڈ… بلوچ قومی آزادی کی جنگ گزشتہ کئی دہائیوں سے ناقابلِ شکست انقلابی جہد کاروں کے جذبے، کمٹمنٹ، صلاحیت، علم و دانش، اور فکر کے سبب بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے لے کر نیلے سمندر تک، دیہات، قصبوں، گاؤں، اور شہروں میں نہ صرف جاری ہے بلکہ ترقی کر رہی ہے۔ آج یہ جدوجہد اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ ہر بلوچ اخلاقی حوالے سے اس قومی جنگ کی حمایت کر رہا ہے۔
کامریڈ… خزاں جتنی سخت ہوتی ہے، بہار اتنی ہی زیادہ پرکشش اور ہریالی لاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بلوچ قوم اور بلوچ وطن اس سخت خزاں کے بعد ایک پرکشش بہار دیکھیں گے، ایک ایسی بہار جو ہر طرف خوشبو بکھیر دے گی، گواڑخوں کو مزید سرسبز اور خوشبودار بنا دے گی۔
خزاں سے کوئی گلہ نہیں! خزاں تو بے رحم ہوتا ہی ہے، نہ جانے اس خزاں نے بہار کی امید لیے کتنے گواڑخوں کو مسل دیا، لیکن کیا یہ گواڑخ رائیگاں جائیں گے؟ نہیں! یہ پھر سے اگیں گے، اپنے ساتھ کئی اور گواڑخ بھی لائیں گے، ہر گلی، ہر کوچہ میں خوشبو پھیلائیں گے، اور امیدِ بہار دلاتے رہیں گے۔ اور پھر ایک دن، بہار کو بلوچ سرزمین پر آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔