بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں کتب میلہ 2025 آج تیسرے روز جاری ہے۔
کتب میلے کا افتتاح آر سی ڈی کونسل میں کیا گیا تھا، جس میں بلوچستان سمیت پاکستان بھر سے نامور علمی، ادبی اور سماجی شخصیات نے شرکت کرر رہے ہیں۔
مقررین نے زور دیا کہ یہ کتاب میلہ نوجوانوں میں کتب بینی کے فروغ اور فکری ترقی کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔
تقریب کے دوران معروف نوجوان لوک گلوکار یونس اور دیدگ بلوچ نے سکول کے بچوں کے ہمراہ اپنی فنی صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کیا، جسے حاضرین نے بے حد سراہا، بعد ازاں، ربن کاٹنے کی رسمی تقریب کے ساتھ کتابوں کے سٹالز کا افتتاح کیا گیا، جہاں مختلف موضوعات پر کتابوں کی وسیع رینج نے قارئین اور زائرین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔
گوادر کتب میلہ اتوار تک جاری رہے گا، جس میں مختلف ادبی و فکری نشستیں اور سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی۔
آج موسمیاتی تبدیلی چیلنجز اور تقاضے” کے عنوان پر کتاب میلہ 2025 کے تیسرے دن مختلف پروگرام جاری ہیں جب کہ آج بھی کتابوں کی رونمائی کی گئی۔
گوادر کتاب میلہ کے تیسرے دن کا آغاز سرفراز محمد کے ساتھ ایک ملاقات سے صبح 9.30 بجے کیا گیا اس کے بعد کتاب A Journey Through Chaos کی رونمائی کی گئی اس پروگرام میں وسعت اللہ خان اور مظہر عباس مہمان تھے جب کہ وحید نور نے پروگرام کی میزبانی کی۔
11 بجے “کلائمیٹ کراسس پر بلوچستان کا لائحہ عمل” پروگرام ہیش کیا گیا جس میں میزبانی کا فرض عبدالرحیم نے ادا کیا جب کہ احمد رافع عالم مہمان تھے۔
“مبارک قاضی کی شاعری اور بلوچی ادب میں اس کی اہمیت” کے موضوع پر پروگرام کے مہمان پروفیسر ڈاکٹر غفور شاد اور زرنیاد تھے جب کہ اس پروگرام میں میزبانی کے فرائض عمران حاصل نے سرانجام دیے۔
اس کے بعد “تخلیقی ادب میں مادری زبان کی اہمیت” کے موضوع پر مباحثہ کیا گیا جس میں فاطمہ حسن اور انعام ندیم نے حصہ لیا اس مباحثہ کےموڈیریٹر مقبول ناصر تھے۔
آج کے پروگرام شام 8.30 بجے تک جاری. رہیں گے جب کہ کل گوادر کتاب میلہ 2025 کا آخری دن ہے جس میں مباحثہ اور پروگرام پیش کیے جانے کے ساتھ ساتھ مختلف کتابوں کی رونمائی کی جائے گی۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے گوادر میں پولیس نے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام کتاب کاروان کے نام سے بک اسٹال لگانے کی پاداش میں طلبا سمیت کتابوں کو تھانہ منقل کیا اور طلبا پر ایف آئی آر درج کیا گیا ، ایف آئی آر میں طلباء پر الزام تھا کہ انہوں ریاست مخالف کتابیں رکھی تھی۔
سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق تین روزہ گوادر بک فیئر میں وہی کتابیں رکھی گئی ہیں جن کے پاداش میں بلوچستان کے مختلف شہروں میں بلوچ طلباء کو ریاستی پابندی کا سامنا کرنا پڑا ۔