گوادر کا نیا ایئرپورٹ: نہ جہاز نہ مسافر، بس ایک پراسراریت

110

چین کی طرف سے 240 ملین ڈالر کی مالی اعانت سے تعمیر کیا گیا گوادر کا نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اکتوبر 2024ء میں مکمل ہونے والے اس ہوائی اڈے سے پروازیں کب شروع ہوں گی، یہ بات ابھی تک معلوم نہیں۔

پاکستانی حکام نے اس منصوبے کو تبدیلی کا نشان قرار دیا ہے، لیکن گوادر شہر میں تبدیلی کے بہت کم آثار نظر آتے ہیں۔ شہر میں بجلی اور پانی کی قلت ہے۔ چار لاکھ مسافروں کی گنجائش والا یہ ہوائی اڈہ شہر کے 90 ہزار باسیوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

پاکستان اور چین کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد کے مطابق یہ ہوائی اڈہ پاکستان یا گوادر کے لیے نہیں ہے: ”یہ چین کے لیے ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں کو گوادر اور بلوچستان تک محفوظ رسائی دے سکے۔‘‘

سی پیک نے بلوچستان میں دہائیوں سے جاری شورش کو ہوا دی ہے۔ علیحدگی پسند، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، پاکستانی فوجیوں اور چینی کارکنوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چین کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے گوادر میں فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شہر میں چیک پوائنٹس، خاردار تاریں، فوجی اور  رکاوٹیں عام منظر ہیں۔ چینی کارکنوں اور پاکستانی وی آئی پیز کو محفوظ طریقے سے گزرنے کی اجازت دینے کے لیے سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، جبکہ صحافیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔