بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے جاری کتاب میلہ مہم بلوچستان کتاب کاروان پر ” بلوچستان کتاب کاروان مہم، اہمیت، تنظیمی موقف اور حکومتی قدغنیں” کے عنوان سے کوئٹہ میں سیمنار کا انعقاد کیا گیا۔
اس سیمنار کا مقصد تنظیم کی جانب سے جاری کتاب میلہ مہم کے بارے میں عوام کو آگاہی دینا، مہم کی اہمیت، افادیت و کامیابی کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا اور مہم پر پولیس و حکومتی اداروں کی جانب سے بلاجواز خلل ڈالنا اور مختلف طریقوں سے کتب بینی پر قدغن لگانے کے بارے آگاہی پھیلانا تھا۔
تقریب میں پینل ڈسکشن، تقاریر، پیپر، ڈاکیومنٹری سمیت ڈرامہ شامل تھا۔ پینل ڈسکشن کے پینلسٹ بلوچ وومن فارم کے آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان بلوچستان چیپٹر کے کاشف پانیزئی، اور لکھاری و کتاب پبلشر سخی نصیردین تھے جس کے موڑریٹنگ بساک کے مرکزی وائس چئیرمین رفیق بلوچ نے کی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچستان میں کتب میلہ کلچر و کتب بینی پر گفتگو کی، جبکہ بلوچستان کتاب کاروان پر ایک ڈاکیومنٹری و ریسرچ پیپر پیش کرنا سمیت کتاب کلچر پر ایک ڈرامہ بھی پیش کیا گیا
سیمنار کے شرکا مہمانوں نے بلوچستان کتاب کاروان پر جاری حکومتی قدغنیں اور بلوچستان میں کتب میلہ لگانے والے نوجوانوں کو کتابوں سمیت جیل کرنے کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو علم و تعلیم سے دور رکھنے کے لئے حکومت کی جانب سے اس طرح کے رویہ اپنانا سراسر غیر قانونی و جارحانہ ہیں، ایسے علم دشمن اقدام پورے خطے کے لئے مظر ثابت ہونگے۔ بلوچستان کو پہلے سے ہی علمی میدان میں پیچھے رکھا گیا ہے، اور حکومت یہاں تعلیمی ماحول کو پروان چڑھانے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، مگر بلوچستان کے نوجوان خود جب اپنے معاشرے کو علمی سطح پر ترقی دینا چاہتے ہیں تو حکومت و ریاست کی جانب سے رکاوٹیں ڈالا جاتا ہے جو علم دشمنی و بلوچ دشمنی کی منہ بولتا ثبوت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کتاب کاروان کامیاب ہوچکا ہے، اس مہم کے توسط سے بساک نے بلوچستان کے کونے کونے میں کتاب میلہ لگا کر وہاں علم کا چراغ روشن کیا ہے جہاں نوجوان، بچے، بوڑھے، عورتوں و تمام مکتبہ فکر کے لوگوں نے بھرپور شرکت کرتے ہوئے کتاب دوستی کی ثبوت دی ہے۔ جہاں تعلیمی نظام انتہائی محدود ہے تو وہاں کتاب میلہ لگا کر معاشرے میں علم کا چراغ روشن کرنا ایک قابل تحسین اقدام ہے اور بساک اس مہم میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اس کاروان کو اسی طرح جاری رکھا جائے اور بلوچ معاشرے میں علم کا چراغ ہمیشہ روشن رکھا جائے۔
سیمنار کامیابی سے منعقد کیا گیا جہاں طالبعلموں، استادوں، سیاسی رہنماؤں و کارکنوں، سماجی جہدکاروں، لکھاری و انسانی حقوق کے لوگوں سمیت دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے سیمنار میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔