وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر قیادت بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5,733 دن مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر کوئٹہ سے بی ایم پی کے مرکزی کونسلر غلام رسول مینگل، منظور احمد بلوچ اور خواتین نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کی۔
کیمپ میں آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کئی برسوں سے جاری ہے جو 2002 سے ایک منفرد انداز میں مسلسل جاری ہے اس دوران ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو پاکستانی خفیہ اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا اور وہ ریاستی ٹارچر سیلوں میں اذیتیں سہنے پر مجبور ہیں۔ مزید برآں ہزاروں بلوچ فرزندوں کو ماورائے آئین و قانون شہید کیا گیا جن کی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاستِ پاکستان اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے آزما رہی ہے تاکہ بلوچ قوم کو زیر کیا جاسکے اس کی نسل کشی جاری رہے اور وسائل کی لوٹ مار بغیر روک ٹوک جاری رہے تاہم، شہداء کے پاک خون کی بدولت آج دنیا کی نظریں بلوچستان پر مرکوز ہوچکی ہیں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ بلوچ قوم مر تو سکتی ہے مگر زندہ رہتے ہوئے انسانیت کی توہین برداشت نہیں کر سکتی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست نے وحشت و بربریت کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں، جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی محکوم اور مظلوم انسانوں کو ایسے زخم دیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے نسلِ انسانی ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔