کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

30

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5731 ویں روز جاری رہا۔

آج قلات سے ملا یار محمد دہواربلوچ ، علی دوست بلوچ ، نظر احمد بلوچ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی ۔

تنظیم کے وائس چئرمین ماماقدیر بلوچ نے کہاکہ خضدار، تربت، پنجگور میں بلوچ فرزندوں کی شھادت ریاست کی جارحانہ پالیسیوں کی تسلسل ہے، بلوچستان میں ریاستی بربریت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ عوام کی جدوجہد نے ریاستی پالیسیوں کو پسپا کردیا ہے جس سے اب ریاستی فورسز نے اپنی پالیسیوں میں مزید جارحیت لاتے ہوئے بلوچ نسل کشی کومزید تیز کردیا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جس طرح مشرقی تیمور کے مسلے پر کورٹ کے فیصلوں کو رد کرتے ہوئے مشرقی تیمور کے لوگوں کو گمشدہ کرکے قتل کیا جاتا رہا بلوچستان میں بھی یہی صورت حال ہے جس طرح مشرقی تیمور میں قابض کی ایجنسیاں بے لگام تھیں اسی طرح بلوچستان میں بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ظلم کا کھیل جاری ہے اس بارے میں پولیس نے ان گمشدگیوں میں خفیہ ایجنسیوں اور ایف سی کے ملوث ہونے کا ثبوت پیش کی ہیں لیکن قابض پاکستان اور ایجنسیوں نے کسی چیز کو خاطر میں لائے بغیر بلوچستان میں ننگی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے جب کہ پاکستان کی مرکزی حکومت بھی مسلے پر اپنے بیانات تبدیل کر تی چلی آرہی ہے لیکن پاکستانی حکومت انتہائی مجرمانہ انداز اس معاملے پر انکاری ہے ۔

انہوں نے کہاکہ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلیئے پاکستانی حکومت نے متعدد اجلاس منعقد کیئے اور کئی کمیٹیاں بھی تشکیل دیئے لیکن کوئی بھی کمیٹی آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کر سکی ہے کیونکہ بلوچستان ایک چھاؤنی کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں تمام فیصلے فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہیں اگر یہاں فوج اوراس کے حواریوں کی ننگی جارحیت کے خلاف کوئی آواز اٹھائے تو اسے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے دوسری جانب انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا کردار ماسوائے سالانہ رپورٹوں کے کچھ نہیں ہے بلوچستان میں بھی مانیٹرنگ میکنزم نہیں ہے اور آج تک موجودہ حالات کو کسی نے مانیٹر نہیں کیا۔