ڈیتھ پولیٹس ۔ اسلم آذاد

116

ڈیتھ پولیٹس 

تحریر: اسلم آذاد

دی بلوچستان پوسٹ

سامراجی ریاست کا بنیادی ڈھانچہ تشدد پر مبنی ہوتا ہے اور وہ اپنے استعالی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کرتی ہے۔ سامراجی طاقتیں عموماً مقامی لوگوں کے درمیان خوف اور دباؤ پیدا کرتی ہیں تاکہ وہ اپنی حکمرانی کو مستحکم رکھ سکیں۔ یہ تشدد جسمانی سطح پر ہو سکتا ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر ذہنی اور ثقافتی سطح پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے، جیسے مقامی لوگوں کے ذہنوں میں خوف، عدم تحفظ کااحساس پیدا کرنا۔

دنیا کی تمام ریاستیں اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کرتی ہیں، لیکن قبضہ گیر ریاستیں (کالونیل یا سامراجی ریاستیں) مقامی لوگوں کو قابو کرنے کے لیے خاص طور پر دو اہم حکمت عملیوں کا استعمال کرتی ہیں: خوف اور لالچ۔

خوف: قبضہ گیر ریاست مقامی لوگوں میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کرتی ہے تاکہ وہ بغاوت یا مزاحمت نہ کریں۔ یہ خوف تشدد، مسخ شدہ لاش، ٹارگٹ کلینگ، دہشت گردی، پولیس، جیلوں، اور غیر قانونی گرفتاری کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ مقامی لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اگر انہوں نے ریاست کے خلاف مزاحمت کی تو ان کا حال برا ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ ریاست کے خلاف اٹھنے کی جرات نہیں کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جب لوگ خوف یا اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، تو وہ اپنے حقوق کے دفاع میں کمزور ہو جاتے ہیں۔ نفسیاتی خوف کے ذریعے قبضہ گیر طاقتیں مقامی لوگوں کو دبانے، ان کے قومی تشخص کو مٹا دینے اور ان کے وسائل کو لوٹنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔

لالچ: قبضہ گیر ریاستیں مقامی لوگوں کو لالچ دینے کے لیے مختلف اقتصادی مراعات یا فوائد پیش کرتی ہیں۔ مثلاً، ان لوگوں کو مراعات، سرکاری نوکریاں، پوسٹنگ، پوزیشن، ٹوکن، ٹیکہ یا مفادات دیکر ان کے ذہنوں میں ایک ایسا تصور پیدا کیا جاتا ہے کہ سامراج کے ساتھ تعاون کرنے سے ان کا فائدہ ہوگا۔

2020 کے بعد، بلوچستان میں ریاست کی جانب سے استعمال ہونے والی نسل کشی کی حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اس پالیسی کو “ڈیتھ پولیٹس” کے نفاذ میں تسلسل اور شدت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں ریاست نے مزید جابرانہ اور مؤثر طریقوں کا سہارا لیا تاکہ بلوچ قومی تحریک کو کچلا جا سکے۔

ریاست جب اپنے تسلط کو مستحکم کرنے کے لیے جبر، دھمکیوں، جبری طور پر لاپتہ کرنے، غیرقانونی گرفتاریوں، مسخ شدہ لاشوں، ٹارگٹ کلنگ یا ڈیتھ پولیٹس (لاشیں پھینک کر لوگوں میں نفسیاتی خوف پھیلانا) کا استعمال کرتی ہے، تو وہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ مقامی لوگ اس ظلم کے خلاف کسی بھی قسم کا احتجاج یا مزاحمت نہ کریں۔

اگر کسی کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا جاتا ہے اور مقامی لوگ احتجاجاً اس کی لاش دفنانے کے بجائے چوک میں رکھ کر انصاف کے لیے احتجاج کرنا چاہتے ہیں، تو ریاست مختلف طریقوں سے لوگوں کو جبراً دفنانے کے لیے تنگ کرتی ہے، دھمکیاں دیتی ہے، برف فیکٹری سے برف کی فراہمی بند کر دیتی ہے، ہسپتال کو فارما کولین دینے سے تنبیہ کرتی ہے (جو لاش کو محفوظ رکھنے کے لیے دوا ہے)، اور احتجاج و دھرنوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے وفود بھیجتی ہے۔ یہ سب ریاست کی جانب سے طاقت کے مظاہرے ہیں تاکہ عوام کو خوف میں مبتلا کیا جا سکے اور وہ لاش کے لیے آواز بلند نہ کر سکیں۔

ریاستی جبر اور دھمکیوں کے باوجود، مقامی لوگوں کا اپنے پیاروں کی لاش کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ متحد اور منظم احتجاج ایک طاقتور طریقہ ہے جس کے ذریعے مقامی لوگ اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔ جب مقامی لوگ اپنی مزاحمت میں ثابت قدم رہتے ہیں، تو وہ نہ صرف ریاست کے جبر کے خلاف کامیاب ہوتے ہیں، بلکہ اپنی قومی شناخت، عزت نفس اور حقوق بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

ریاست کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ مقامی لوگ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق لاشوں کو جلد دفناتے ہیں، کیونکہ اسلامی روایات میں دفنانے میں تاخیر گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ریاست نے مقامی لوگوں کی مذہبی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ ڈیتھ پولیٹس کا گندہ کھیل کھیلا ہے۔

ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو اپنی مذہبی کمزوریوں کا فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہیے۔ انہیں اپنے پیاروں کی لاشوں کو جبری دفنانے کے بجائے، انہیں چوکوں اور سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کرنا چاہیے تاکہ ریاستی پالیسیوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ اس طرح نہ صرف مقامی لوگوں کی حفاظت ہو گی، بلکہ ان کے سیاسی حقوق کا بھی دفاع کیا جا سکے گا۔

جس طرح بالاچ بلوچ کو جبری طور پر دفنانے کے بجائے اُس کے خاندان نے ہمت اور ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کی لاش کو تربت کے فدا شہید چوک پر رکھ کر انصاف کے لیے آواز بلند کی، اس لاش کی بدولت ایک پورا تحریک جنم لے سکی۔ آج وہ تحریک بلوچ یکجہتی کمیٹی کی صورت میں ایک تنظیم کے طور پر موجود ہے۔ اگر وہ خاندان ہمت نہ کرتا اور بی وائی سی اُس کی رہنمائی نہ کرتی تو آج بلوچ نسل کشی ایک عبرتناک شکل اختیار کر چکی ہوتی۔

جب تک مقامی لوگ ریاستی تشدد اور جبر کے خلاف ایک منظم اور متحد ردعمل نہیں دیتے، ریاست کو مزاحمت کو کچلنے کا موقع ملے گا اور وہ اپنی نسل کشی کی پالیسی کو مزید شدت سے جاری رکھے گی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف مقامی لوگوں کی زندگی متاثر ہو گی، بلکہ ان کی اجتماعی اور ثقافتی شناخت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

یہ فیصلہ مقامی لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ خاموشی سے باری باری اپنی موت کا انتظار کریں یا حق، انصاف، آزادی اور زندگی کے تحفظ کے لیے مزاحمت کریں۔ اگر وہ اپنے حقوق کی جنگ کے لیے متحد ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، تو ان کی مزاحمت ریاست کے جبر کو روکنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر وہ اس غلامی کو تسلیم کر لیتے ہیں اور مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کرتے، تو نسل کشی کا تسلسل اور بھی بڑھ جائے گا۔

ریاستی جبر اور نسل کشی کے اس تسلسل کو روکنے کے لیے مقامی لوگوں کا اجتماعی ردعمل ضروری ہے۔ انہیں احتجاج، دھرنوں، اور مزاحمت کی دیگر اشکال اپنانی ہوں گی تاکہ ریاست کے جبر کو شکست دی جا سکے۔ خاموشی سے مرنے کے بجائے اجتماعی ردعمل میں ہی طاقت ہے۔ اس سے نہ صرف ریاستی ظلم کو ختم کیا جا سکتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کے حقوق کا دفاع ممکن ہو گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔