ڈراپ سین
تحریر: سیم زہری
دی بلوچستان پوسٹ
گزشتہ ہفتے خضدار سے اسمہ جتک کو ظہور جمالزی نامی نفسیاتی مریض نے اغوا کیا۔ زبردستی گھر میں گھسے۔ بچوں بوڑھوں اور عوتوں پر تشدد بھی کیا۔ اسمہ کو اپنے ساتھ سردار ثنا اللہ زرکزئی کے خلق انجیرہ لے گئے۔
میں نے اس بابت اپنے گزشتہ تحریر میں ذکر کیا تھا بلکہ اس سے قبل کئی سالوں سے ان کی اصلیت آپ کے سامنے پیش کرتا آیا ہوں۔ سردار زرکزئی کی ظلم کی داستانیں اتنی زیادہ ہیں کہ پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے قبائیلی جنگوں کے پسِ پشت حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کس کی ایما پر چل رہے ہیں۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں قبائلی جنگوں کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے، جس میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور بے شمار خاندان برباد ہوچکے ہیں۔ ان جنگوں کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ جیسے تعلیم کی کمی۔ صدیوں پر محیط بلوچ قومی غلامی ، لیکن سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ جنگیں دشمن ریاست کی سرپرستی میں بھی پروان چڑھ رہی ہیں۔
پنجابی ریاست کی مخصوص مفادات، اور بعض عناصر کی پشت پناہی کے باعث قبائلی تصادم ایک نہ ختم ہونے والا المیہ بن چکا ہے۔ ان جنگوں کے نتیجے میں بلوچستان میں ایک انسانی بحران پیدا ہو چکی ہے۔ جبکہ دشمن ہمارے ہی وسائل اور اندرونی اختلافات کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ قبائلی جنگیں صرف چند افراد یا مخصوص قبائل کا نقصان نہیں، بلکہ یہ پورے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے لیے ایک تباہ کن خطرہ ہیں۔ ان تنازعات میں ریاستی سرپرستی نہ صرف مزید بربادی کا باعث بنے گی بلکہ بلوچ قومی تحریک کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنیں گے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے اور میں اپنی بات ثابت کرنے کے لئے آپ کے سامنے مثال پیش کر سکتا ہوں کہ قبائلی جنگوں اور تنازعات میں پنجابی ریاست اور یہ قابائلی سردار میر معتبر گماشتے کیسے ملوث ہیں۔
جب بھی بلوچستان میں خصوصاً ان علاقوں میں جہاں بلوچ قومی تحریک زور پکڑتی ہے وہاں وہاں آس پاس کے علاقوں میں قبائلی تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے۔ ان جنگوں میں ایک قسم کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ بالکل اصلی والی ٹریننگ۔ اصلی گولیاں ، اصلی خون بہتا ہے اور اصلی انسان مرتے ہیں۔ یہ کوئی فلم کا سین نہیں ہوتا بلکہ حقیقت میں دونوں اطراف سے بلوچ مر رہے ہوتے ہیں۔ لڑتے لڑتے جب دونوں فریق تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ مرنے والے جان سے چلے گئے جو باقی بچے وہ پنجابی ریاست کے لئے ٹریننگ یافتہ توپچی بن جاتے ہیں۔ پنجابی انہیں سنبھالنے کے لیے دوڑ پڑتا ہے سینے سے لگا لیتا ہے۔ اور ایک ہی دفتر میں بیٹھے دو الگ الگ فوجی آفیسر انہیں ڈیل کرتے ہیں۔ ان کو بلیک میل کرتے ہیں۔ پھر بلوچ قومی تحریک کے سامنے رکاوٹ کے طور پر استعمال کرتے ہی۔
ماضی میں اگر جھانک کر دیکھیں تو رند رئیسانی کے درمیان الیکشن کے وقت معمولی جنگ کئی بلوچ نوجوانوں کا خون بہا لے گئی۔ اس طویل جنگ میں دونوں ان اطراف سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور آخر میں سراج رئیسانی بچا جو پنجابی کو میسر آیا۔ بگٹی قبیلے کا آپس میں جنگ۔ سلال بگٹی کی کلپر کے ہاتھوں قتل بعد میں سرفراز بگٹی کی شکل میں پنجابی کو ایک دلال میسر آیا۔ لہڑی لانگو جنگ میں میر عبدالخالق لانگو ، اورنگ زیب لانگو سمیت کئی بلوچ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے وہاں بچنے والوں میں ضیاء لانگو پنجابی کی دلالی شروع کی۔ لانگو مینگل قبائلی جنگ میں میر شائستہ خان مینگل مارا گیا اس کے بیٹے کوہی خان مینگل احمد خان مینگل ایک جھتہ بنا کر بلوچ نوجوانوں کی شہادت اور اغوا کرنے میں براہ راست ملوث رہے۔ دشت گوران سناڑی مینگل ششک کے اوپر فساد میں کئی بلوچ لقمہ اجل بن گئے۔ میر اضغر مینگل مارا گیا۔ تو ان کا بھائی قمبر خان مینگل اپنے بچوں سمیت پنجابی کی دلالی شروع کرکے شور پارود میں براہ راست بلوچ نوجوانوں کی شہادت میں اپنے ہاتھ رنگے۔ اگر آپ غور کریں تو قلات میں مشرقی طرف ہربوئی لٹ پہ کوہی خان کو بٹھایا گیا۔ شور پارود کی طرف قمبر خان مینگل کیمپ کرکے بلوچ تحریک کے سامنے رکاوٹ ڈالتا رہا۔ قومی تحریک کا اسلحہ چوری کیا۔ زرکزئی ساسولی جنگ میں میر نصیر زرکزئی کے بیٹے سلمان اور اورنگ زیب پنجابی کے حصے میں پڑے۔ اُدھر ساسولی اپنے قبیلے سمیت پنجابی کی خدمت گزاری میں لگ گیا۔
دو ہزار چار پانچ میں جب بلوچ قومی فوج شور پارود خاران نوشکی کے درمیانی علاقے میں اپنی صفیں مضبوط کر رہا تھا تو سناڑی مینگل قبائلی جنگ کا اسکرپٹ کوئٹہ کینٹ میں تیار ہو رہا تھا۔ اسی دوران ناگاہی بولان اسپلنجی جوہان کے علاقے میں بھی بی ایل اے اپنا بیس کیمپ پھیلا رہا تھا عین اسی وقت مینگل لانگو، لہڑی لانگو قبائلی جنگ کا اسکرپٹ لکھا جا رہا تھا۔ اسی دور میں زہری میں جمالزی قبیلے کا بانو کی سیاہ کاری سے شروع ہونے والی جنگ نے کئی قبائل کو آپس میں دست و گریبان کردیا۔ پنجابی دشمن نے اس جنگ کو گھر گھر پہنچانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ سردار ثناء اللہ زرکزئی میر نعمت زرکزئی کا بھر پور استعمال کیا گیا تاکہ بلوچ قومی تحریک کا ناگاہی سے جھالان میں داخلے کو روک سکیں لیکن ان کی قسمت تب پھوٹی جب دو ہزار تیرہ میں بلوچ سرمچاروں نے میر زیب ، سکندر اور مہر اللہ کو راستے سے ہٹا دیا۔ ایک لحاظ سے پنجابی کا یہ اسکرپٹ فلاپ چلا گیا۔
میر امان اللہ زرکزئی ایک سلجھے ہوئے انسان تھے۔ شاید وہ دشمن کی چالوں کو سمجھتے تھے اس لئے ان کا حصہ بننے سے انکاری تھے اس لیے کسی رات بلبل سے زہری بازار سفر کے دوران ان پر گھات لگائے حملہ کیا گیا تاکہ ان کو راستے سے ہٹا کر شاید ان کے بیٹوں سے کام لیا جا سکے لیکن بہت سے لوگوں کا گمان ہے کہ میر نیاز اور ان کے بھائی اس خوف ناک راستے پر چلنے سے گریز کریں گے۔
غالبا دو سال قبل انجیرہ میں میر نعمت کی سربراہی میں جتک قبائل سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کو بلا کر پھر بعد میں قتل کیا گیا تاکہ ایک جنگ چھیڑ سکیں لیکن یہ اسکرپٹ بھی کامیابی سے ہمکنار ہونے سے پہلے دم توڑ گیا۔ ابھی گزشتہ ماہ جب بلوچ سرمچاروں نے زہری بازار میں داخل ہو کر بلوچ نوجوانوں کا بھرپور توجہ حاصل کرکے بحفاظت چلے گئے۔ تو پنجابی نے اس طاقت کو بخوبی بھانپ لیا اور فوراً اسکرپٹ لکھنے بیٹھ گیا۔ ایک معصوم بچی اسمہ کو ظہور جمالزئی کے ذریعے اغوا کرایا۔
کہانی کا دوسرا حصہ کچھ یوں ہے کہ دو دن قبل میر کامران جتک کا ایک ویڈیو پیغام نظروں سے گزرا۔ پہلے میں آپ کے سامنے میر کامران جتک کی حقیقت بیان کرتا ہوں۔ کامران جتک کو تب سے جانتا ہوں جب وہ ماڈل سکول میں پڑھتا تھا اور ہم بی ایس او کے عام ورکر ہونے کے ناطے ایوب جتک کے لیکچر سننے سراپ جاتے تھے۔ کامران ایک ضدی شرارتی بچہ تھا۔ پھر ایوب جتک نے پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کیا تو ہم نے سراپ جانے کی کبھی زحمت نہ کی۔ لیکن بعد میں کامران جتک کو لمبی داڑھی تسبیح نماز کی حالت میں دیکھا۔ اسی دن مجھے کامران کی شکل اور ارادے مشکوک لگنے لگے۔ بعد میں پتہ چلا کہ میر کامران جتک کو خفیہ اداروں نے اغوا کیا ہے۔ اور وہ کئی مہینوں بلکہ سال سے بھی زیادہ عرصے تک غائب بھی رہے۔ لیکن مجھے بالکل بھی یقین نہیں آیا کہ ایسی داڑھی والوں کو تو آئی ایس آئی اپنے گلے سے لگاتی ہے تو پھر کیسے اس کو غائب کر سکتا ہے۔ بلوچستان میں ایسی داڑھی ٹوپی والے بہت سے مشکوک شکلوں کا آپ کو مشاہدہ کروا سکتا ہوں۔ آپ شفیق مینگل کی شکل دیکھیں۔ آپ سردار کمال خان بنگلزئی کی شکل دیکھیں۔ آپ شاہ جہان گرگناڑی کو دیکھیں۔ آپ یونس محمد شہی کو دیکھیں۔ اور پھر آپ پاکستان میں حافظ سعید کے گروپ ( سابقہ جیش محمد ، جماعت الدعواۃ )کے لوگوں کو دیکھیں غور کریں تو آپ کے سامنے ہر چیز آشکار ہوگی۔ اگر آپ پتہ کریں تو ایک دور میں میر کامران کی طرح یونس محمد شہی بھی خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا ہوا تھا۔ آپ معلوم کریں گے تو یہ حقیقت بھی آپ کے سامنے آشکار ہوگی کی میر شہاہ جہان گرگناڑی ساکن گدر بھی ایک زمانے میں گم تھا۔
در حقیت یہ غائب نہیں ہوتے بلکہ یہ ٹریننگ پہ ہوتے ہیں پھر یہاں آکر بلوچ قبائل کو لڑاتے ہیں اور دشمن کے لئے اساسہ پیدا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو بلوچ قومی تحریک سے بیگانہ بنا کر آپس میں دست و گریبان کرتے ہیں۔
میر کامران جتک اپنے ویڈیو پیغام میں کہہ رہے تھے کہ سردار ثناءاللہ زرکزئی نے ظہور جمالزئی جیسے غنڈوں کو پناہ دی ہے۔ موصوف یہ بھی کہہ رہے تھے کہ دو سال قبل جتک قبیلے کے دو تین افراد کو انجیرہ بلا کر شھید کیا گیا۔ حالانکہ جتک قبیلے کے ان افراد کو قتل کروانے میں سردار محمد علی خان جتک خود ملوث تھا۔ کم از کم سردار محمد علی خان جتک موقع پر موجود تھے۔
ابھی آپ کے سامنے اپنے خدشات رکھتا ہوں کہ مستقبل قریب میں کیا ہو سکتا ہے یا ہونے جا رہا ہے۔ پہلے ایک لائن میں دو ہزار تیرہ کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ جلال عرف جلو جمالزئی، ظہور جمالزئی والوں کو خضدار شفٹ کیا گیا تاکہ بلوچ نوجوانوں کو اغوا و قتل کیا جا سکے لیکن جلّو جمالزئی اس کام میں فیل ہو گیا۔ خضدار میں حضورا پر حملہ کرکے ذخمی کردیا۔ خضدار سے واپس بھاگے انجیرہ پہنچے۔ دو ہزار چودہ کے اوائل میں جلو آڑچنو میں حیدر سے مڈبھیڑ میں مارا گیا۔
خدشات یہ ہیں کہ زہری کے علاقے میں اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہاں بڑے بڑے قبائل میں موسیانی رئیس جتک لوٹانی اور کچھ کچھ طاقت کی وجہ سے زرکزئی شامل ہیں۔ موسیانی کا سردار اور ان کے بیٹے کبھی بلوچ دشمنی کا مرتکب نہیں ہوئے۔ وڈیرہ سرور موسیانی کو بھی اس گند سے اجتناب کرنا ہوگا۔ رئیس قبیلے میں بھی سمجھدار افراد بہت ہیں وہ بھی دشمن کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے۔ البتہ جتک واحد قبیلہ ہے جو قلات گزگ ناگاہی ٹاکاری سے لیکر مشک بیل مولہ تا سندھ پھیلا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے پنجابی دشمن بھی ان کے اوپر پے در پے حملے کر چکا ہے تاکہ انہیں پہلے قبائلی جنگ میں ملوث کرکے بلیک میل کیا جا سکے۔ پھر بلوچ سرمچاروں کے خلاف استعمال کیا جائے۔
اس کے لئے میر کامران جتک موضوں فریق بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حاصل جتک گروپ پہلے سے دشمن کے لئے کام کر رہا ہے۔ نائب میرزا کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔