چین کا دورہ اور بلوچستان میں سیکیورٹی چیلنجز
ٹی بی پی اداریہ
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری پانچ روزہ دورے پر چین میں ہیں، جہاں وہ صدر شی جن پنگ اور کمیونسٹ حکومت کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے بلوچستان میں چین کے اقتصادی اور عسکری منصوبوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چین کے انجینئرز اور سرمایہ کاروں پر کراچی اور بلوچستان میں مسلسل حملوں کے باعث چین کے معاشی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔ کراچی ہوائی اڈے پر چینی سرمایہ کاروں پر مہلک حملے کے بعد چین کی کمیونسٹ حکومت ان منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے سخت سیکیورٹی اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہے اور پاکستان پر دباؤ بڑھا رہی ہے کہ عسکری اور معاشی منصوبوں کی حفاظت کے لیے چین کے نجی سیکیورٹی اداروں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم، پاکستان کی معیشت کا دارومدار مغربی ممالک پر ہے اور وہ قرض کے لیے آئی ایم ایف پر انحصار کر رہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان چینی سیکیورٹی کمپنیوں کو اجازت دینے سے قاصر ہے۔
آصف علی زرداری اور شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد پاکستان، کابل کی طالبان حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ چین مخالف قوتوں کو افغانستان میں پناہ دینے سے گریز کرے۔ تاہم، بلوچ تحریک پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار بارہا نشاندہی کر چکے ہیں کہ بلوچ قومی مسئلے کو حل کیے بغیر بلوچستان میں چین کے منصوبوں پر حملے ختم ہونے کے آثار نہیں ہیں۔ محض دوسرے ممالک پر دباؤ بڑھانے سے چین کے سیکیورٹی مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ بلوچستان میں منصوبوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بلوچ قوم کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔
بلوچستان میں قومی حقوق کی جدوجہد سے منسلک ادارے چین کے منصوبوں کو بلوچ قومی مفادات کے خلاف قرار دیتے رہے ہیں اور وہ قومی حقوق، بشمول حقِ علیحدگی، حاصل کیے بغیر بلوچ قومی جنگ کو مزید شدت سے جاری رکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کے باعث بلوچستان میں چین کے معاشی اور عسکری منصوبوں کی تکمیل مزید مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔
چین کے سیکیورٹی خدشات پر پاکستان کی یقین دہانیاں بلوچستان کے زمینی حقائق سے متصادم ہیں، اور بلوچ قوم کے تحفظات دور کرنے کے بغیر یہ یقین دہانیاں بلوچستان کے جنگ زدہ حالات پر کوئی دیرپا اثر نہیں ڈال سکیں گی۔