مشترکہ جدوجہد سے ہی خضدار جیسے مظالم کا راستہ روک سکتے ہیں – سمی دین بلوچ

166

‏بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ اسما بلوچ کا واقعہ بلوچستان میں نہ پہلا تھا اور نہ ہی آخری ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق ان علاقوں میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، لیکن اس واقعے میں لواحقین اور بلوچ عوام نے جس ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا، وہ قابلِ ستائش ہے۔ اگر یہ لوگ خاموشی اختیار کر لیتے، عزت و ناموس کو اپنی کمزوری کو بنا کر خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتے، تو شاید آج اسمہ کی بازیابی ممکن نہ ہوتی۔

انہوں نے کہاکہ ‏ہر ممکن طریقے سے اسما بلوچ کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، باپ اور بھائیوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیکر زبردستی ویڈیوز ریکارڈ کروائی گئیں تاکہ اصل مجرم خود کو بری الذمہ ثابت کر سکیں۔ اگر ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کو ریاستی سرپرستی حاصل نہ ہوتی، تو وہ کبھی بلوچ عورتوں کو اغوا کرنے کی جرات نہ کرتے۔ بی بی اسمہ جتک کی بازیابی اسی لیے ممکن ہو سکی کیونکہ ان کے خاندان اور بلوچ قوم نے سخت احتجاج کا راستہ اپنایا۔

انہوں نے کہاکہ ‏یہاں کا نام نہاد قانون صرف ظالم کو تحفظ دیتا ہے اور مظلوم کو قصوروار ٹھہراتا ہے۔ ہمارے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے—اپنے گھروں سے نکل کر ہر ظلم کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہونا۔اس جدوجہد نے نہ صرف مزاحمت کی کامیابی کا، بلکہ اس درندوں کیلئے بھی مثال قائم کیا جو آج کے بعد اس طرح کے جرائم کرنے کی جراَت نہیں کریں گے۔

سمی دین نے کہاکہ صرف مزاحمت ہی وہ طاقت ہے جو بلوچ قوم پر جاری جبر کے سلسلے کو ختم کر سکتی ہے۔ مشترکہ جدوجہد سے ہی ہم اس ظلم کے راستے کو روک سکتے ہیں۔