متنازعہ حکومتی بیانیہ اور معروضی حقائق
ٹی بی پی ادریہ
انیس فروری کی شب ضلع بارکھان کے علاقے رڑکن میں لیویز تھانے کی حدود میں بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی شاہراہ پر سینکڑوں مسلح افراد نے ناکہ بندی کرکے سپر میختر کی بس کو روکا اور سات افراد کو نیچے اتار کر فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی اور ہلاک شدگان کو پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندے قرار دیا۔
اس شاہراہ پر موسیٰ خیل کی حدود میں اس سے پہلے بھی بلوچ لبریشن آرمی نے “آپریشن ہیروف” کے دوران فوج سے وابستہ کئی افراد کو ہلاک کیا تھا۔
بلوچستان کے متنازع وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے چند روز قبل اسمبلی کے پارلیمانی اجلاس میں خطاب کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان میں ایسا کوئی علاقہ موجود نہیں جو آزادی کے لیے برسرپیکار مسلح تنظیموں کے زیر قبضہ ہو۔ تاہم، سال 2025 کے پہلے دو مہینوں میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے تربت، قلات اور بولان کی اہم شاہراہوں پر قبضہ کرکے ناکہ بندی کرنا اور پاکستان فوج کو جانی نقصان سے دوچار کرنا، حکومت کے ان دعوؤں کی نفی کرتا ہے اور سنگین حالات پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے اس بیان سے بھی یہ معاملہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان کے کم از کم پانچ اضلاع بلوچ مزاحمت کاروں کے زیر قبضہ ہیں۔ یہ حقیقت مقتدر قوتوں کے زیر اثر حکومت کے اعلانات کے برعکس ہے، جو مسلسل بلوچستان میں امن و استحکام کے دعوے کرتی آئی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے اس دعوے اور بلوچستان کے بگڑتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں بلوچستان کے مزید علاقے پاکستان فوج کے کنٹرول سے باہر ہو کر بلوچ مزاحمت کاروں کے زیر دست آ سکتے ہیں۔