فکری تنقید کی بنیاد: علمی تحقیق اور عمل – بلال بلوچ

209

فکری تنقید کی بنیاد: علمی تحقیق اور عمل

تحریر: بلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے معاشرتی، سیاسی، اور ثقافتی معاملات پر بات کرتے وقت، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ تنقید، اعتراض اور سوالات کا عمل بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ سب حقیقت میں کس بنیاد پر ہوتا ہے؟ اکثر ہم کسی چیز کو صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ہمیں اس سے اختلاف ہوتا ہے، مگر یہ تنقید حقیقتاً علم، تحقیق یا تجربے کی بنیاد پر ہوتی ہے؟ یا پھر یہ محض ایک ذاتی رائے، جذبات یا سنی سنائی باتوں کا نتیجہ ہوتی ہے؟

آج کل کی بحثوں میں، اکثر تنقید اور سوالات کے درمیان فرق واضح نہیں ہوتا۔ تنقید کا مقصد ہمیشہ کسی چیز کی خامیوں کو اجاگر کرنا اور ان کا حل پیش کرنا ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے بہت سوں کے لیے تنقید کا مطلب صرف اعتراض یا مخالفت بن کر رہ جاتا ہے۔ جب ہم تنقید کرتے ہیں، تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا ہم اس موضوع پر مکمل علم رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس اس بات کی دلیل ہے کہ جو ہم کہہ رہے ہیں وہ درست ہے؟

مثال کے طور پر، اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی دوائی کا استعمال نقصان دہ ہے، تو ہمیں صرف یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ “خراب” ہے۔ ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ وہ کیوں نقصان دہ ہے، اور اس کے نقصانات کیا ہیں۔ پھر ہم یہ بھی بتائیں کہ اس کا کوئی متبادل علاج کیا ہے؟ اور اگر ہم متبادل علاج پیش کرتے ہیں، تو اس کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟ یہ سب کچھ علم اور تحقیق کی بنیاد پر ہونا چاہیے، تاکہ ہماری تنقید مفید اور تعمیری ہو۔

اگر ہم کسی بات پر صرف اپنے ذاتی تجربات یا خیالات کی بنیاد پر تنقید کرتے ہیں، تو وہ تنقید علمی نہیں سمجھی جائے گی۔ علم کی کمی یا سنی سنائی باتوں پر یقین کرنا کسی بھی تنقید کو بے اثر اور غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔ تنقید کے اصول یہ ہیں کہ وہ علم، تحقیق اور ٹھوس دلائل کی بنیاد پر ہو، تاکہ اس سے معاشرتی یا سیاسی تبدیلی آ سکے۔

دوسری طرف، جب ہم محض کسی مسئلے پر تنقید کرنے کے بجائے اس کا حل یا متبادل پیش کرتے ہیں، تو ہماری تنقید زیادہ تعمیری اور مؤثر بن جاتی ہے۔ یہ عمل ہمیں نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ اس سے دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔

جب ہم بحث کرتے ہیں یا تنقید کرتے ہیں، تو یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ ہم خود کس مقام پر کھڑے ہیں؟ کیا ہم صرف باتیں کر رہے ہیں، یا ہماری باتوں کا کوئی عملی اثر بھی ہے؟ جو لوگ خود علم، تجربے اور تحقیق سے لیس ہوتے ہیں، ان کی تنقید ہمیشہ قابل قدر ہوتی ہے، کیونکہ وہ اپنے الفاظ کے ساتھ عمل بھی کرتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب ہم خود کسی چیز کو نہیں سمجھتے یا اس کے بارے میں علم نہیں رکھتے، تو ہمیں اس پر خاموش رہنا چاہیے۔ اگر ہم محض اپنی ناکامیوں یا کمزوریوں کو چھپانے کے لیے تنقید کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف بے اثر ہوتی ہے، بلکہ یہ دوسروں کو الجھن میں ڈال دیتی ہے۔

آج ہمیں وقت کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی توانائی اور وقت کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے، اور کسی بھی موضوع پر تنقید کرتے وقت اسے حقیقت، علم اور تحقیق کی بنیاد پر پیش کرنا چاہیے۔ اگر ہم تنقید کو صرف ایک حربہ بنا کر پیش کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہم خود نقصان اٹھاتے ہیں، بلکہ ہماری سوسائٹی بھی ترقی نہیں کر پاتی ہمیں اپنے سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل کے بارے میں گہرائی سے سوچنا چاہیے اور ان پر تحقیق کرنی چاہیے۔ پھر ہم جو بھی تنقید یا رائے پیش کریں، وہ نہ صرف حقیقت پر مبنی ہو، بلکہ اس سے عملی تبدیلی کی امید بھی جڑی ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔