افغانستان میں طالبان حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت انصار اللہ (تاجکستانی طالبان) نے افغانستان میں تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں اور انھیں القاعدہ نیٹ ورک تربیت دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ رکن ممالک کی معلومات کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں ٹی ٹی پی، القاعدہ اور انصار اللہ کے علاوہ افغانستان میں داعش، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ/ ترکستان اسلامک پارٹی، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور دیگر غیر ملکی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
تاہم طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’بعض ممالک اور انٹیلی جنس حلقوں‘ کی جانب سے بے بنیاد ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔
سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تربیتی مراکز ان سے الگ ہیں جہاں القاعدہ پہلے کام کرتی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور جماعت انصار اللہ کے تربیتی مراکز خوست، کنڑ، ننگرہار، پکتیکا اور تخار میں واقع ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے افغانستان میں سرگرم غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے اور اب وہ 14 صوبوں میں موجود ہے۔
تنظیم کی سابقہ رپورٹ میں افغانستان کے 12 صوبوں میں القاعدہ سے وابستہ مراکز کی موجودگی کا ذکر کیا گیا تھا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کسی گروپ کا کوئی مرکز نہیں ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ رپورٹ ’کچھ مخالف جماعتوں‘ کے پروپیگنڈے پر مبنی ہے جو افغانستان کے خلاف ’سازشوں میں مصروف‘ ہیں اور رائے عامہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انھوں نے اسے افغانستان کی صورتحال کا منفی جائزہ قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا نام افغانستان کے خلاف غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ’اسلامی امارت [طالبان حکومت]، اپنے وعدوں کی بنیاد پر، کسی بھی غیر ملکی گروپ کو افغانستان میں سرگرمیوں، رابطہ کاری یا تربیتی مراکز کی اجازت نہیں دیتی۔‘