شہری گوریلا جنگ: بلوچ قومی آزادی کے دو درخشاں چراغ ۔ زگرین بلوچ

80

شہری گوریلا جنگ: بلوچ قومی آزادی کے دو درخشاں چراغ 

تحریر: زگرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گوریلا جنگ تاریخی طور پر محکوم اقوام کا سامراجی قوتوں کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار رہی ہے۔ بلوچ قومی مزاحمت کو عالمی گوریلا جنگی تحریکوں سے گہری مماثلت حاصل ہے، خاص طور پر شہری گوریلا جنگ کے تناظر میں۔ گوریلا جنگ کی حکمت عملی پر مشہور انقلابی رہنما ماؤ زے تنگ کے مطابق “گوریلا کو عوام کے درمیان ایسے رہنا چاہیے جیسے مچھلی پانی میں رہتی ہے۔” دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں نے گوریلا جنگ کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر اپنایا ہے۔ الجزائری نیشنل لبریشن فرنٹ، ویت کانگ اور فلسطینی مزاحمتی تحریکیں اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ بلوچ قومی تحریک بھی اسی حکمت عملی پر کاربند ہے، جہاں ریاستی جبر اور سماجی و سیاسی حاشیہ بندی کے خلاف گوریلا مزاحمت جاری ہے۔ شہری گوریلا جنگ کسی بھی نوآبادیاتی طاقت کے خلاف ایک ناقابل تسخیر حکمت عملی ثابت ہوئی ہے۔ عدنان بلوچ اور نقیب بلوچ جیسے نوجوانوں نے اس حکمت عملی کو اپناتے ہوئے بلوچ قومی مزاحمت میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ ان کی شہادت نے واضح کردیا کہ شہری گوریلا دشمن کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے جو اسے کسی بھی لمحے نشانہ بنا سکتا ہے۔ جب ایک محکوم قوم مزاحمت کا فیصلہ کرلیتی ہے تو قابض قوتوں کے لیے فتح ناممکن ہوجاتی ہے۔ شہری گوریلا جنگ ایک ایسا ہتھیار ہے جو قابض کے انفراسٹرکچر، ریاستی اداروں اور نفسیاتی برتری کو گہرے زخم دیتا ہے، اور یہی حکمت عملی بلوچ قومی آزادی کی راہ میں ایک روشن چراغ ثابت ہو رہی ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی کے ہکل پبلیکیشنز کی کتاب “گوریلا جنگی حکمت عملیاں” میں لکھا ہے کہ

“شہری گوریلا جنگجو وہ شخص ہے جو شہروں میں دشمن و قابض افواج سے غیر روایتی جنگی حربوں کے ذریعے لڑتا ہے۔ وہ ایک وطن دوست انقلابی کارکن ہوتا ہے، جو اپنے وطن کی آزادی کا سپاہی اور اپنے عوام کا دوست ہوتا ہے۔ شہری گوریلا بڑی آبادی والے شہروں اور قصبوں میں جنگی کارروائیاں سرانجام دیتا ہے۔ شہری گوریلا ایک واضح سیاسی پروگرام و مقصد رکھتا ہے اور قابض افواج اور اس کے ساتھ شریک جرم لوگوں کو نشانہ بناتا ہے۔ شہری گوریلا قابض کا ناقابل تسخیر دشمن ہوتا ہے، جو ریاستی مشینری اور ریاستی آلہ کار مقامی افراد کو منظم انداز میں نقصان پہنچاتا ہے، انہیں کمزور کرتا ہے، اور شہری گوریلا جنگجو کا بنیادی ہدف یہی ہوتا ہے کہ وہ قابض کی جابر افواج، اس کی مشینری اور اس کے تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا کر قابض کے مورال کو گرا دے۔ شہری گوریلا قابض کی بنائی گئی سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی تخریب میں اہم کردار ادا کرتا ہے تاکہ پہاڑی گوریلوں کو نئے نظام کی تعمیر میں مدد مل سکے۔”

چی گویرا نے اپنی کتاب “Guerilla Warfare” میں شہری اور پہاڑی گوریلا کے کردار کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اگرچہ ان کی بنیادی توجہ پہاڑی گوریلا جنگ پر تھی، لیکن وہ شہری گوریلا کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ ان کے مطابق شہری گوریلا جنگ کے ذریعے دشمن کے مراکز کو نشانہ بنا کر پہاڑی گوریلا کو تقویت دی جاسکتی ہے۔ ہکل پبلیکیشنز کی کتاب “گوریلا جنگی حکمت عملیاں” میں بھی یہی موقف ہے کہ شہری گوریلا دراصل پہاڑی گوریلا کو سہارا دیتا ہے تاکہ وہ نئے نظام کی تعمیر کر سکے۔

بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے حالیہ دنوں نوشکی میں قابض پاکستانی فوج کے خلاف شہری گوریلا حکمت عملی کے تحت کارروائیاں کیں، جن میں دشمن کے متعدد اہلکار ہلاک ہوئے۔ تاہم ان معرکوں میں بلوچ لبریشن آرمی کے دو بہادر فرزند عدنان بلوچ اور نقیب جمالدینی مادرِ وطن کی آزادی کے سفر میں شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوگئے۔

شہید عدنان بلوچ عرف سفر خان ولد وزیر احمد نوشکی کے علاقے کلی مینگل سے تعلق رکھتے تھے۔ عدنان بلوچ انٹرنیشنل ریلیشنز میں بی ایس کر رہے تھے، لیکن جب انہوں نے اپنی مادرِ وطن پر قابض قوتوں کے جبر و استحصال کو محسوس کیا تو انہوں نے کتابوں کے ساتھ بندوق اٹھانے کا فیصلہ کیا اور 2023 کے اوائل میں بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بنے۔ عدنان بلوچ ایک شہری گوریلا جنگجو کے طور پر نوشکی اور گردونواح میں مختلف کارروائیوں میں شریک رہے، جہاں انہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ نوشکی کے علاقے قادرآباد کے مقام پر قابض پاکستانی فوج پر ہونے والے حملے کے دوران دشمن کی گولی لگنے کے باوجود اپنی پوزیشن نہیں چھوڑی اور ایک گھنٹے سے زائد قابض فوج کا مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کے لیے واپسی کا محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔

شہید نقیب جمالدینی عرف ماران بلوچ ولد حمید اللہ جمالدینی نوشکی کے علاقے کلی جمالدینی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پچھلے آٹھ مہینوں سے بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بن کر قابض قوتوں کے خلاف سرگرم رہے، جبکہ قلیل مدت میں ہی انہوں نے نوشکی اور گردونواح میں دشمن پر کئی کاری ضربیں لگائیں اور اپنی تنظیمی ذمہ داریوں کو انتہائی بہادری اور دیانت داری کے ساتھ نبھایا۔ 7 فروری کی شب نوشکی کے علاقے زور آباد خزینگ میں قابض پاکستانی فوج نے نقیب جمالدینی کی گرفتاری کے لیے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، لیکن سنگت نقیب جمالدینی نے گرفتاری کو قبول کرنے کے بجائے دشمن سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ شدید لڑائی کے دوران وہ زخمی ہوگئے، لیکن ایک گھنٹے تک دشمن کے 13 اہلکاروں کو ہلاک اور چار کو زخمی کرنے میں کامیاب رہے۔ گولیاں ختم ہونے پر انہوں نے بلوچ سرمچاروں کے اصول “شہید پھلین امیرالملک بلوچ کے فلسفے” پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان مادرِ وطن پر قربان کردی تاکہ دشمن کے ہاتھوں گرفتاری کی ذلت سے محفوظ رہ سکیں۔

فرانز فینن کہتا ہے کہ “نوآبادیاتی طاقتیں ہمیشہ طاقت کے ذریعے محکوم اقوام کو دبا کر رکھتی ہیں اور اس جبر کا جواب بھی تشدد سے دینا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ نوآبادیات تشدد سے پیدا ہوتی ہیں اور صرف تشدد سے ہی ختم ہوسکتی ہیں۔” شہید عدنان بلوچ اور شہید نقیب بلوچ نے اسی اصول پر عمل کیا اور انہوں نے دشمن فوج کی طاقت کا جواب تشدد سے دیا۔ فرانز فینن نے یہ بھی وضاحت کی کہ گوریلا جنگ صرف عسکری حملے نہیں بلکہ نفسیاتی جنگ بھی ہے۔ جب محکوم قوم کے افراد مزاحمت کرتے ہیں تو وہ صرف دشمن کو جسمانی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اس کے ذہن پر بھی ضرب لگاتے ہیں، اور یہی اصول سنگت عدنان بلوچ کے حملے میں نظر آتا ہے، جہاں انہوں نے دشمن کے قافلے پر حملہ کرکے ریاستی اداروں پر یہ واضح کیا کہ وہ کبھی بھی اور کہیں بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔ شہید عدنان بلوچ زخمی ہونے کے باوجود ایک گھنٹے تک دشمن کے خلاف لڑتے رہے اور اپنی یونٹ کو محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے شہادت قبول کی۔

فینن کے مطابق انقلابی جنگ میں ہر شہادت عوام کے شعور کو مزید پختہ کرتی ہے اور دشمن کی طاقت کے گرد شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ شہید نقیب بلوچ نے دشمن کے ہاتھوں گرفتاری کو اپنی شکست سمجھنے کے بجائے اپنی آخری گولی کو اپنے لیے استعمال کیا۔ فرانز فینن کہتا ہے کہ “ایک انقلابی کے لیے شکست تب ہے جب وہ خود کو محکومی میں جانے دے۔” شہید نقیب بلوچ نے آخری لمحے تک اپنی آزادی کو برقرار رکھا اور یہ ثابت کردیا کہ شہری گوریلا جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے کہ وہ دشمن کو مسلسل بے بس رکھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔