خضدار واقعہ؛ بلوچ قبائلی نظام اور سرداروں کے خلاف تابوت میں آخری کیل ۔ اسرار شوہاز

82

خضدار واقعہ؛ بلوچ قبائلی نظام اور سرداروں کے خلاف تابوت میں آخری کیل

تحریر: اسرار شوہاز

دی بلوچستان پوسٹ

بقول میر یوسف عزیز مگسی: “اب سرداروں کے سدھرنے کے دن گزر چکے، اب انہیں کچلنا چاہیے۔” اور ہم اکثر ذکر کرتے ہیں کہ “تاریخ بہادروں کی لکھی جائے گی نہ کہ تلوے چاٹنے والوں کی۔”

جیسے تاریخ میں ہمیں بہادر سرداروں کی مثالیں ملتی ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آنے والی نسلیں ان کی مثال دیتی رہیں گی۔ ان میں سے ایک نام اور کردار شہید نواب نوروز خان زہری کا ہے، جنہوں نے ایک بلوچ عورت کی عزت کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دشمن کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا۔

نواب نوروز خان زہری نے بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاست کے جبر اور ناانصافیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ 1950 کی دہائی کے آخر میں، انہوں نے حکومت کی طرف سے بلوچستان کے جبری انضمام اور بلوچوں کے حقوق کو مسلسل دبانے کے خلاف مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔ ان کی مزاحمت بلوچ قوم کی خودمختاری، وقار اور ثقافتی ورثے، بالخصوص بلوچ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے گہری وابستگی کا مظہر تھی۔ مذاکرات کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ دے کر نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو 1959 میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے بڑھاپے کے باوجود انہیں قید کر دیا گیا، اور ان کے بیٹوں اور ساتھی جنگجوؤں کو پھانسی دے دی گئی۔ وہ اسیری میں شہید ہوئے، اور نوروز خان زہری بلوچ مزاحمت اور قربانی کی علامت بن گئے۔ ان کا موقف، قربانی، جنگی حکمت عملی اور بہادری بلوچ قوم کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی، جو اپنی شناخت، خودمختاری اور آزادی کے لیے جارحیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھے گی۔

دوسری جانب، بابائے قوم شہید نواب اکبر خان بگٹی، جنہوں نے بلوچستان میں قبائلی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی بلوچوں سمیت دیگر مظلوم اقوام اور بلوچستان کے حقوق، وقار، آزادی اور وسائل کے دفاع کے لیے وقف کر دی۔ سوئی شہر میں پاکستانی فوجی افسر کرنل حماد کے ہاتھوں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ زیادتی (ریپ) کے بعد، پاکستانی ریاست کے خلاف ان کی مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ نواب بگٹی نے سندھی خاتون ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں انصاف کا مطالبہ کیا اور اصرار کیا کہ اس افسر کو بلوچی جرگہ میں پیش کیا جائے تاکہ بلوچ روایات کے مطابق تحقیقات کرکے سزا دی جا سکے۔ وہ چاہتے تھے کہ فوجی افسر کے خلاف مقدمہ بلوچی عدالت میں چلایا جائے، لیکن ریاست نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو ہوا دیتے ہوئے مجرم کو تحفظ فراہم کیا اور اسے سوئی سے فرار ہونے میں مدد دی۔ بلوچستان میں مقیم ایک غیر بلوچ عورت کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے، نواب بگٹی نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کی قیادت کا اعلان کیا۔

2006 میں امن مذاکرات کے دوران، پاکستانی فوج نے ایک وحشیانہ آپریشن شروع کیا، جس میں نواب اکبر خان کے محفوظ ٹھکانوں پر بم برسائے گئے۔ اس حملے میں نواب بگٹی کو ان کے گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ ایک ٹارگٹڈ حملے میں شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت نے ایک مضبوط مزاحمتی تحریک کو بھڑکا دیا، اور آج تک بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد جاری ہے۔ ان کی فکر بلوچ قوم کے لیے ایک نیا باب تھی، جو بلوچستان کے کونے کونے تک پھیل گئی ہے۔

یزیدی ریاست اور اس کے پراکسیوں کی طرف سے بلوچ قوم پر جاری ظلم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، جو لمحۂ فکریہ ہے۔ دوسری جانب، بلوچ سرداروں کو چند مراعات دے کر بلوچ قوم کی جدوجہد کو کمزور کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تاریخ سے سبق حاصل کرنے سے گریزاں ہے۔ بلوچ قوم نے اپنی عزتِ نفس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، اور کئی دہائیوں کی مزاحمت کے باوجود، ریاستی حمایت یافتہ قوتیں اپنے وحشیانہ ہتھکنڈوں پر قائم ہیں۔

ایک بار پھر، نام نہاد قبائلی اشرافیہ اور ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈز کو بلوچستان کی آواز دبانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ خضدار میں ایک بلوچ نوجوان لڑکی عاصمہ جتک کا حالیہ اغوا بلوچ خواتین اور ان کے خاندانوں پر منظم تشدد کی ایک اور المناک مثال ہے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی سے بلوچستان بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، اور قوم ایسے مظالم کی شدید مذمت کرتی چلی آ رہی ہے۔ بلوچ عوام کو ان ناانصافیوں کے خلاف متحد ہونے کا وقت آگیا ہے۔ بلوچ قوم کو اپنی جدوجہد کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والی قوتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ریاستی حمایت یافتہ جبر کا شکار ہونے والے تمام متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے متحد ہونے کا عزم کرنا چاہیے۔ بلوچستان کی تاریخ مزاحمت اور لچک سے عبارت ہے، اور انصاف، وقار اور آزادی کی بحالی تک جدوجہد جاری رہے گی۔

ایک بار پھر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نام نہاد سرداروں کا جرگہ بلا کر بلوچ قوم کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جائے گی، اور مرکزی مجرموں کو چور راستے سے فرار کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، ریاستی ادارے “مذاکرات، مذاکرات” کا کھیل کھیلتے ہوئے عوام کو منتشر کرنے کے ہر ممکن حربے استعمال کریں گے۔ لیکن قارئین یاد رکھیں، یہ وہی مخصوص ٹولہ ہے جس نے نواب نوروز خان کو قرآن پاک کا واسطہ دے کر مذاکرات کے نام پر پہاڑوں سے نیچے اتار کر گرفتار کیا، اور یہ وہی نادیدہ قوتیں ہیں جنہوں نے مذاکرات کا ڈرامہ رچا کر نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا۔

اب فیصلہ بلوچی عدالت میں ہونا چاہیے، ورنہ بلوچستان میں ایسا کوئی گھر محفوظ نہیں رہے گا، جہاں عورتیں اپنی چاردیواری میں محفوظ رہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔