حوصلوں کی سر زمین پر اٹھتا انقلاب ۔ حکیم واڈیلہ

45

حوصلوں کی سر زمین پر اٹھتا انقلاب 

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

اٹھارہ جنوری دو ہزار پچیس کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر لیاری، کراچی میں ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس کا مقصد پچیس جنوری کو بلوچ نسل کشی کے یادگار دن کے حوالے سے آگاہی پھیلانا تھا۔ لیاری ہمیشہ سے بلوچ سیاست، ادب، آرٹ، کھیل اور فن کا ایک انتہائی اہم مرکز رہا ہے۔ کراچی میں مقیم بلوچوں کا قومی شعور ہمیشہ بلوچستان میں ہونے والے جبر و بربریت کے خلاف مزاحمت کرتا رہا ہے۔ بلوچ قومی سیاست میں کراچی کے بلوچوں نے ہمیشہ اپنا شعوری کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے، اور اٹھارہ جنوری کو بھی وہ اسی قومی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے لیاری میں یکجا ہوئے، جہاں ان کی سرپرستی ایک بلوچ بیٹی، سمی دین، کر رہی تھیں۔ ان کے ساتھ لالا وہاب بلوچ، آمنہ بلوچ، فوزیہ بلوچ سمیت دیگر بی وائی سی رہنما، کارکنان اور عام بلوچ بھی شریک تھے۔

لیاری میں جاری اس پُرامن آگاہی مہم کو سبوتاژ کرنے کے لیے سندھ پولیس اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تاریخی بلوچ دشمن پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پُرامن مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما اور جبری گمشدگی کا شکار بلوچ رہنما، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، کی صاحبزادی سمی دین کا دوپٹہ کھینچ کر انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان کے ساتھ آمنہ بلوچ، فوزیہ بلوچ اور دیگر بلوچ خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا، جنہیں بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔ پولیس نے بلوچ خواتین سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما لالا وہاب اور دیگر ہمدردوں کو بھی گرفتار کر لیا۔ اس گرفتاری کا مقصد بلوچ قوم میں خوف پیدا کرنا، کراچی کے بلوچوں کو بلوچ قومی تحریک سے دور رکھنا اور یہ پیغام دینا تھا کہ بلوچستان میں جاری ظلم، جبر اور بربریت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو ریاستی وحشت اور بربریت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بلوچ اور پاکستانی ریاست کے تعلقات روزِ اول سے واضح ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف شدید نفرت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد بلوچستان پر قبضہ کر کے اس سرزمین کے باسیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے، جبکہ بلوچوں نے روزِ اول سے ہی اس قبضہ گیریت، جبر، بربریت اور نسل کشی کے خلاف قومی مزاحمت کا آغاز کر دیا تھا۔ اٹھارہ جنوری کی گرفتاریاں بھی اسی سلسلے کی کڑی تھیں، جہاں ریاست نے نہتے، پُرامن بلوچ مظاہرین پر اپنی حیوانیت کا اظہار اس لیے کیا کیونکہ وہ بلوچوں کو انسان تصور نہیں کرتی اور بلوچ دشمن پالیسی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

گرفتاریاں، جھوٹے مقدمات، دھمکیاں، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اور جعلی مقابلوں میں قتل عام، یہ سب بلوچستان میں معمول بن چکا ہے۔ ریاستی بربریت کے تسلسل نے نہ صرف بلوچوں کے دلوں میں مزید نفرت پیدا کر دی ہے بلکہ ان کے اندر خوف بھی ختم کر دیا ہے۔ اب وہ اس ظلم و جبر کا مقابلہ انتہائی دلیری اور بہادری سے کر رہے ہیں۔ جب اٹھارہ جنوری کو گرفتار ہونے والی سمی دین کو رہا کیا گیا، تو وہ پولیس اسٹیشن کے باہر کھڑی ہو کر مسکرا رہی تھیں۔ اس مسکراہٹ میں ایک انقلاب پوشیدہ تھا، وہی انقلاب جو ڈالبندین میں بلوچ راجی مُچی کی کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔

اٹھارہ جنوری کو امان قاضی اور سرفراز بلوچ کو بھی دیگر افراد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ان کی کچھ تصاویر وائرل ہوئیں، جن میں ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور وہ وکٹری کا نشان بنائے کھڑے تھے۔ امان قاضی، جو ایک کتاب دوست اور قوم پرست شخصیت ہیں، بلوچ راجی مُچی کے حوالے سے جاری مہم میں اپنی بلوچ قوم سے محبت کے باعث وہاں موجود تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے، جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، یا کسی اور ظلم و جبر کا شکار کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ وہاں موجود تھے۔ یہ بلوچوں کا اپنی جدوجہد، اپنی قوم، اپنی سرزمین اور اپنی تاریخ سے وہ شعوری لگاؤ ہے جسے ریاستی ظلم و جبر کی تمام پالیسیاں بھی ختم نہیں کر سکتیں۔

امان قاضی کے ہمراہ سرفراز بلوچ بھی ان تصاویر میں نظر آئے، جہاں ایک تصویر میں ہتھکڑیاں پہننے کے باوجود وہ خوفزدہ یا غمزدہ ہونے کے بجائے انتہائی خوشگوار موڈ میں ہنستے دکھائی دیے۔ سرفراز بلوچ، جن کی داڑھی میں اب سفید بال نمایاں ہو چکے ہیں، ہمیشہ ہی سماجی، ادبی اور قومی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اٹھارہ جنوری کو بلوچ راجی مُچی کی آگاہی مہم کا حصہ بنے۔

لالا وہاب، جو بی وائی سی کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں، کو اٹھارہ جنوری کو لیاری سے غیر قانونی طور پر حراست میں لینا، دراصل انہیں ڈرانے، دھمکانے اور عوام میں خوف پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ شاید پاکستانی ریاست یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچ قوم اپنے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف منظم ہو کر ایک جدوجہد کو آگے بڑھا رہی ہے۔ وہ جدوجہد جس کی قیادت آج بلوچستان میں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ جیسی بہادر بلوچ بیٹیاں کر رہی ہیں، اور جس میں ہزاروں آمنہ بلوچ اور فوزیہ بلوچ جیسی انقلابی خواتین ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اس جدوجہد میں لالا وہاب، سرفراز بلوچ، امان قاضی اور دیگر نوجوان و بزرگ ہر لمحہ متحرک ہیں۔ انہوں نے ڈالبندین میں بلوچ راجی مُچی کو کامیاب بنا کر بلوچ نسل کشی کے یادگاری دن کو تاریخی حیثیت دے دی، اور دنیا کو پیغام پہنچایا کہ بلوچ سرزمین پر ایک انقلاب جاری ہے، جہاں سفید پرچم مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔

پاکستانی ریاست اپنی ظلم، جبر اور بربریت کی انتہا پر پہنچنے کے باوجود بھی بلوچ قومی آواز کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بلوچ قومی شعور ہے، وہی شعور جو کبھی نواب خیر بخش مری کے سرکلز میں سنائی دیتا تھا، کبھی شہید غلام محمد اور شہید ڈاکٹر منان کی محفلوں میں گونجتا تھا، وہی شعور جو جبری گمشدگی کا شکار زاکر مجید، زاہد کرد، شبیر بلوچ اور شہید رضا جہانگیر کی تقریروں میں جھلکتا تھا۔ یہی وہ شعور تھا جس نے شہید صباء دشتیاری کو یہ کہنے پر مجبور کیا تھا کہ “میں بولوں گا، تم سچائی سے کیوں ڈرتے ہو؟”

یہی وہ شعور ہے جس کی سرکوبی کے لیے بلوچستان کے گلی کوچوں سے ہزاروں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا، ہزاروں مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی گئیں۔ آج بلوچ قومی شعور تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، جہاں اسے موجودہ قیادت جیسی منظم اور پُرعزم لیڈرشپ کی رہنمائی اپنی منزل سے مزید قریب کر سکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔