حب میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد دھرنا ختم

3

حب میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد تین دن سے جاری اپنا دھرنا ختم کردیا ہے۔

تین دن سے حب چوکی کے قریب بھوانی میں کوئٹہ کراچی مرکزی شاہراہ پر جاری اس دھرنے میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فورسز اور سیکورٹی اداروں نے غیر قانونی طور پر ان کے پیاروں کو حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔

حب چوکی دھرنا لاپتہ چاکر بگٹی، جنید حمید، یاسر حمید، نوروز اسلام، نصیر بلوچ و دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے گذشتہ تین دن سے جاری تھی جس کے بعد کوئٹہ سے کراچی کا رابطہ منقطع ہوکر گیا۔

دھرنے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان نے بھی شرکت، کمیٹی کے رہنماؤں نے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔

انتظامیہ سے مذاکرات اور مطالبات

لواحقین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کا آغاز گزشتہ روز ہوا۔ اس دوران انتظامیہ کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے اور ان کے پیاروں کی بازیابی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

تین دن دھرنے پر رہنے والے لاپتہ افراد کے لواحقین آج ڈپٹی کمشنر کے یقین دھانی پر انتظامیہ کو بیس دن کی مہلت دی۔

اس دوران لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے واضح کیا کہ بیس دن میں ان کے پیاروں کو منظر عام پر نہیں لایا گیا، تو وہ مزید احتجاج کریں گے اور اس کے بعد سخت لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ انصاف کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔