توتک آپریشن: سردار علی محمد خان قلندرانی کے بیٹوں کی جبری گمشدگی ریاستی ظلم و بربریت ہے – نواب اسلم رئیسانی

298

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے توتک آپریشن کے 18 سال مکمل ہونے پر کہا ہے کہ سردار علی محمد خان قلندرانی کے تین بیٹے پچھلے 14سال سے لاپتہ کیے گیے ہیں جو ریاستی ظلم و بربریت کے مترادف ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ان سب لاپتہ افراد کے اَغواکاروں کو بے نقاب کرنا اور اِن لاپتہ افراد کی بازیابی ریاست پاکستان کی %100 فیصد ذمہ داری ہے۔

واضح رہے کہ توتک میں پاکستانی فورسز کی جانب سے سال 2011 میں فوجی آپریشن کو آج چودا سال مکمل ہوگئے فورسز نے آپریشن کے دوران توتک سے درجنوں افراد کو حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا تھا جبکہ فورسز نے دوران آپریشن دو نوجوان کو بھی قتل کردیا تھا۔

توتک آپریشن کو 14 سال مکمل ہونے پر آج بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ “بی ایس ایم اے” کی جانب سے سوشل میڈیا رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیمپئن بھی چلائی جارہی ہے۔

خیال رہے خضدار میں 18 فروری 2011 کو پاکستانی فورسز نے توتک کے گاؤں کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی لی، کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی آپریشن میں گاؤں کے تمام مرد افراد کو ایک جگہ جمع کرکے فورسز اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا بعدازاں ان میں سے کئی افراد بازیاب ہوگئے لیکن 82 سالہ محمد رحیم خان قلندرانی اور اس کے خاندان کے دیگر 16 افراد بازیاب نہیں ہوسکیں۔

جبکہ مذکورہ علاقے توتک مژی سے اجتماعی قبریں ملی تھی ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی 2014 میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ ان قبروں سے کل ایک سو انہتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔

توتک سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عالمی انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک ہنگامی اپیل جاری کی تھی جبکہ لواحقین کی جانب سے مختلف اوقات میں مظاہرے کیئے جاچکے ہیں لیکن تاحال مذکورہ افراد بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔