بلوچ معاشرے میں سرداری نظام ۔ ماھنور بلوچ

46

بلوچ معاشرے میں سرداری نظام

تحریر: ماھنور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قابض دشمن فوج 28 مارچ 1948 سے جھوٹے اور جعلی سردار، نواب اور میروں کو بلوچ آزادی پسند معاشرے کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ اس لیے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بلوچ قوم کی سب سے بڑی کمزوری انگریزوں کا بنایا گیا نوابی، میری اور سرداری نظام ہے۔ پنجابی حکمرانوں نے بھی جعلی سرداری نظام سے ہمیشہ بھرپور فائدہ اُٹھایا کیونکہ قبائلی سرداری نظام کے تحت عام بلوچ عوام براہ راست دشمن کے غلام بن جاتے ہیں۔ 28 مارچ 1948 کو بلوچ قوم کو پنجابی کے غلام بنانے میں بھی انہی قبائلی سرداروں اور میروں کا ہاتھ تھا۔ اسی سرداری اور نوابی سسٹم کی وجہ سے عظیم بلوچ قوم قبائل میں تقسیم در تقسیم ہوئی، جس کا فائدہ صرف اور خالصتاً دشمن کو ہوا۔ قوم کو غلام بنانے کے لیے دشمن کو زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا، بس عبد الرحمان کھتران، یار محمد رِند، تاج جمالی، ذوالفقار مگسی اور سینکڑوں ایسے ایک سردار کو ڈر یا لالچ دے کر خرید لیتا ہے تو پوری برادری یا قبیلہ ذہنی غلام بن جاتا ہے۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈیرہ مُراد جمالی، جھل مگسی، ڈیرہ بگٹی، جیکب آباد، کشمور، ڈیرہ غازی خان، سبی اور کوہ سلیمان کے کئی علاقوں میں بابا مری، شہید اکبر بگٹی اور شہید بالاچ مری کی جنگ ٹھیک طریقے سے نہیں پھیل سکی، حالانکہ وہ خود کوہ سلیمان سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسری طرف یہ جنگ مکران تا رخشان دشمن کے لیے مسلسل سردرد بنی ہوئی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ براہمداغ بگٹی سمیت شہید نواب اکبر بگٹی کے سارے پوتے سرینڈر اور ڈیل کر چکے ہیں، کیونکہ وہ نظریاتی نہیں تھے۔ ڈیرہ بگٹی میں گزشتہ چھ سات سال سے جو کچھ ہو رہا ہے، پوری بلوچ قوم باخبر ہے۔

اب تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ چاہے 1957-58 میں بابو نوروز کے خلاف دشمن کی جنگ ہو یا 1973-76 میں بابا خیربخش مری اور عطا اللہ مینگل کے خلاف جنگ، دشمن جان چکا ہے کہ یہ قوم نواب، سردار اور میروں کی غلام ہے۔ اس لیے مری بلوچ کی مدد کے لیے نزدیک کے سلیمانی بلوچ — لغاری، کھتران، بگٹی، جمالی، مگسی، رند، کھوسہ، جھکرانی اور مزاری، جو اپنے آپ کو میر چاکر کے اولاد اور بہادر سمجھتے ہیں — ان لوگوں کو ذرا بھی غیرت اور شرم نہیں آئی کہ پنجابی کے خلاف اپنے نزدیکی بلوچ بھائی، مری بلوچ قبائل کا ساتھ دیتے، کیونکہ ان قبائل کے سردار تو بھٹو کے جوتے چاٹ رہے تھے۔

اسی طرح بلوچستان کی آزادی کی جتنی بھی گوریلا جنگیں ہوئیں، وہ ہمیشہ مخصوص علاقوں تک محدود رہیں۔ دوسری طرف دشمن نے عبد الرحمان کھتران، لسبیلہ کے جام، یار محمد رند، ذوالفقار مگسی اور ظفر اللہ جمالی جیسے بہت سے سردار، نواب اور میروں کو بلوچ معاشرے میں سپورٹ کرنا جاری رکھا۔ یار محمد رند، جو بولان کے نزدیکی علاقے ڈھاڈر کے جعلی سردار ہیں، جنرل مشرف کا فیورٹ سردار تھا۔ اسے سرداری نظام کو پنجابی فوج کے مطابق برقرار رکھنے پر سرکاری ایوارڈ بھی ملا، کیونکہ اس نے اپنے رند ٹکر کو بولان میں راجی لشکر (بی ایل اے) کے خلاف کھڑا کیا تھا۔

آج بانُک زرینہ مری، بانُک رشیدہ زہری اور بانُک ماہل بلوچ جیسی کئی بلوچ عورتوں کو فوج گھروں سے اٹھا کر غائب کر رہی ہے، بلوچ عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر مارا پیٹا جاتا ہے، تو یہ جھوٹے اور بزدل سردار اور میر بند کمروں میں شرم کے مارے روتے ہوں گے یا بے غیرتی میں ہنستے ہوں گے۔

شاید آپ مرحوم ظفر اللہ جمالی کے نام سے ناراض ہوں، لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پولیٹیکل سائنس کے مطابق، جو لیڈر بڑے عہدے پر کام کر چکا ہو، بعد میں وہ اپنی عزت اور وقار کے پیش نظر چھوٹے منصب کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ ظفر اللہ جمالی تو وہ شخص تھا جو مشرف کے دور میں فوج کے آشیرباد سے پاکستان کا وزیر اعظم بنا، بعد میں اپنے پیٹ کے لیے ہاکی کا وزیر بن گیا، حالانکہ اسے نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد مشرف کی کابینہ میں کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بلکہ اسے اپنے جمالی، سندھ کے بلوچ، اور قریب کے مگسی و جھکرانی برادری سمیت بلوچوں کو بلوچستان کی آزادی کے لیے اکٹھا کرنا چاہیے تھا، کیونکہ وہ سلیمانی بیلٹ میں ایک بااثر شخصیت تھا۔

جنرل مشرف ہمیشہ کہتا تھا کہ سوائے تین سرداروں کے، بلوچستان کے باقی سارے سردار ہم نے پیسوں سے خرید لیے ہیں اور یہ ہمارے لوگ ہیں، ان میں سے تو کوئی آزاد بلوچستان کی بات نہیں کرتا۔ ہم ان تین سرداروں کو ایسے تباہ کریں گے کہ انہیں پتا ہی نہیں چلے گا کہ کیسے مارے گئے۔ ویسے مشرف یہ باتیں اس لیے کرتا تھا کہ اسے امریکہ اور نیٹو کی طرف سے بے تحاشا فوجی اور معاشی امداد مل رہی تھی، کیونکہ گوریلا جنگ کے سامنے سوویت یونین اور امریکہ بھی نہیں ٹِک پائے، تو پاکستان جیسے بھکاری ملک کی کوئی اوقات ہی نہیں تھی کہ پشتون اور بلوچ قوم سے گوریلا جنگ لڑ سکے۔

مشرف نے سوچا تھا کہ یہ جنگ صرف دو اضلاع تک محدود رہے گی۔ پاکستانی فوج نے جب جنگ کی تیاری کی تو اسے “Military Operation in Kohlu & Dera Bugti Region” کا نام دیا۔ اگر آپ پاکستانی آرمی کی ویب سائٹ پر جائیں تو وہاں بہت سے جھوٹے مقامی جنگی آپریشنز جیسے “آپریشن راہِ نجات”، “خیبر I”، “خیبر II”، “رد الفساد”، “ضربِ عضب” اور دوسرے کئی آپریشن تو ملیں گے، لیکن بلوچستان کے نام پر ایک ہی آپریشن ہے، جس کے تحت چھ مہینے میں ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سے ان دو سرداروں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستانی آرمی نے امریکہ اور نیٹو کے اسلحے کے ساتھ اس جنگ میں زبردست تیاری کی تھی۔ البتہ، اس جنگ میں وہ نہیں ہوا جو پاکستانی فوج نے چھ مہینے کے اندر مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ پاکستانی فوج کو یہ جنگ مہنگی پڑ گئی۔ جیسے 1957 میں بابو نوروز اور 1973-76 میں نواب مری کے رخشانی میں بلوچ آزادی کی جنگ چند سالوں میں کچھ علاقوں تک محدود رہی تھی، ویسے ہی نواب اکبر بگٹی اور شہید بالاچ مری کے رخشانی میں شروع کی گئی بلوچستان کی آزادی کی جنگ کو بی ایس او کے نظریات سے سرشار بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے نوشکی، چاغی، گوادر، رخشان اور مکران سمیت پورے بلوچستان میں پھیلا دیا۔

سب کو یاد ہے کہ 2002 میں، مشرف کے دور میں جب بی ایل اے حملے کرتا تھا تو پاکستانی فوج اور میڈیا کہتے تھے کہ بی ایل اے نام کی کوئی چیز نہیں، بلوچستان میں کوئی آزادی کی جنگ نہیں۔ لیکن آج صبح سے لے کر شام تک پاکستانی ٹی وی چینلز اور پارلیمنٹ میں بس بی ایل اے، بی ایل اے ہو رہا ہے۔ آج دشمن بی ایل اے کی ضرب اور مجید بریگیڈ کو بھی تسلیم کر رہا ہے، اور بی ایل اے کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک جا چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن جنگ ہار رہا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کوہِ سلیمان کے علاقوں میں پاکستانی فوج کا بھرپور کنٹرول ہے اور وہاں بلوچ آزادی کے لیے ذہن سازی نہیں کی گئی۔

دشمن کی ظلم، درندگی اور جبر نے بلوچ معاشرے کے اندر ریاستِ پاکستان کے خلاف بے انتہا نفرت پیدا کر دی ہے، جو نفرت بلوچستان کی آزادی کے چراغ کی طرح بلوچ قوم کو آزادی کی طرف لے جا رہی ہے۔

آخر میں کہوں گی کہ بلوچ قوم کے اصل دشمن ہمارے اپنے ہی نواب، میر اور سردار ہیں، جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ بلوچ قوم کے لیے ایک آزاد، جمہوری اور سیکولر ملک “آزاد بلوچستان” بنے۔ بلوچ قوم کو سب سے پہلے ان جھوٹے سرداروں کے خلاف ہتھیار اٹھانا چاہیے، یا کم از کم ان لوگوں سے نفرت تو کر سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔