بلوچ خواتین کو قومی جدوجہد میں متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر شلی بلوچ

186

بلوچ وومن فورم کے جانب سے آواران میں ایک سیاسی مشاورتی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت آرگنائزر نورین بلوچ نے کی۔ اجلاس کی مہمان خصوصی آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ جب کہ ڈپٹی آرگنائزر حنیفہ بلوچ اور مرکزی کمیٹی کے رکن زکیہ بلوچ بھی شریک تھیں۔

اجلاس میں “تنظیم، تنظیم کاری اور قومی جدوجہد میں خواتین کا کردار” کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہا کہ تنظیم وہ پلیٹ فارم ہوتا ہے جہاں ہم سب مل کر کسی مشترکہ مقصد کے لیے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اگر ایک تحریک کی بنیاد میں اجتماعی سوچ اور مقاصد کارفرما نہ ہوں تو وہ انتشار کا شکار ہو جاتی ہے ہر فرد کو آزاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق جو چاہے کرے لیکن کسی بھی تحریک میں سب کو مشترکہ مقصد کے تحت مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی قومی تحریک کے لیے تنظیمی ڈھانچہ اور اس کے اصول بہت اہم ہوتے ہیں اگر ایک تحریک سیاسی بنیادوں پر استوار نہ ہو اور محض انفرادی کوششوں پر منحصر ہو تو وہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکتی۔ تنظیم سازی کا بنیادی مقصد اجتماعی سوچ کو یکجا کرکے ایک مربوط حکمت عملی بنانا ہے تاکہ تمام افراد ایک ہی سمت میں کام کریں اور جدوجہد کو منظم طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔

انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تمام آزادی پسند تحریکوں نے تنظیمی بنیادوں پر کامیابیاں حاصل کی ہیں، جیسے انگولا، الجزائر، ویتنام، کرد، تامل ٹائیگرز اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک۔ ان تحریکوں میں خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ بلوچ خواتین کو بھی اسی بنیاد پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر جدوجہد کو مضبوط بنانا ہوگا۔

ڈاکٹر شلی بلوچ نے ریاستی بیانیے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بلوچ خواتین کمزور ہیں وہ فیصلہ سازی میں جذباتی ہوتی ہیں، اور ان کی شرکت محدود ہونی چاہیے۔ یہ ایک منصوبہ بند حکمت عملی ہے تاکہ بلوچ خواتین قومی جدوجہد میں مؤثر کردار ادا نہ کر سکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچ تاریخ میں خواتین ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہی ہیں چاہے وہ جنگی میدان ہو یا سماجی و سیاسی محاذ۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں برطانوی حکومت سب سے زیادہ خواتین کی شرکت سے پریشان تھی، کیونکہ وہ فرنٹ لائن پر آ کر قیادت کر رہی تھیں۔ اسی طرح بلوچ خواتین کو بھی قومی جدوجہد میں متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔

آخر میں انہوں نے بلوچ تاریخ میں موجود بہادر خواتین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ خواتین ہمیشہ قومی غیرت و حمیت کا نشان رہی ہیں، چاہے وہ بانڈی ہو، گل بی بی ہو، چھاگلی ہو یا مائی بیبو اور سلطان خاتون۔ انہوں نے نہ صرف میدانِ جنگ میں اپنی بہادری کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے قربانیاں بھی دیں۔ ہمیں ان خواتین کی جدوجہد کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔

اجلاس کے اختتام پر حاضرین نے مختلف سوالات کیے اور تنظیمی جدوجہد کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا۔