بلوچ جہدکار کا بے رحم جنگ اور آزادی کا فلسفہ – زگرین بلوچ

571

بلوچ جہدکار کا بے رحم جنگ اور آزادی کا فلسفہ

تحریر: زگرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیئرمین اور بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر انچیف بشیر زیب بلوچ کی حالیہ ویڈیو پیغام محض ایک جنگی اعلان نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور فلسفیانہ جنگ کی دعوت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ “شدید اور بےحد بےرحم جنگ لڑی جائے” ایک ایسے فلسفے کی عکاسی کرتا ہے جو نوآبادیاتی جبر، مزاحمت اور آزادی کی سرحدوں کو ازسرنو متعین کرتا ہے۔ یہ فلسفہ فرانز فینن کے اس نظریے سے جڑا ہوا ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں مزاحمت محض ردعمل نہیں بلکہ ایک نیا وجود پیدا کرنے کا عمل بھی ہے، فینن کے مطابق نوآبادیاتی نظام کا سب سے خطرناک پہلو یہ نہیں کہ وہ زمین اور وسائل پر قبضہ کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ محکوم عوام کی نفسیات کو غلام بنا دیتا ہے۔ مزاحمت کی اصل جنگ باہر بیٹھ کر نہیں بلکہ اندر لڑی جاتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام میں استعماری طاقت محض زمینوں پر قبضہ نہیں کرتی بلکہ وہ ذہنوں کو غلام بنانے کا ایک منظم عمل بھی ترتیب دیتی ہے۔ فینن کے بقول استعمار کے زیرِ تسلط محکوم عوام صرف اپنے وسائل نہیں کھوتے بلکہ اپنی خودی، اپنی شناخت اور اپنی تاریخ کا بھی ایک بڑا حصہ گنوا دیتے ہیں۔ محکوم پر مسلط کیے گئے ظلم کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی غلامی کو ایک معمول سمجھنے لگتا ہے اور اس کی روح کو ایک ایسی بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے جو دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ایسے میں مزاحمت محض ایک اخلاقی اور سیاسی ضرورت نہیں رہتی بلکہ قومی بقا اور شناخت کی بحالی کا واحد راستہ بن جاتی ہے۔

کمانڈر انچیف بشیر زیب بلوچ کے الفاظ میں جو شدت اور مزاحمت کی للکار ہے، وہ ہمیں فینن کی کتاب The Wretched of the Earth میں اس سطر کی یاد دلاتی ہے “تشدد ہی وہ زبان ہے جسے استعمار سمجھتا ہے اور صرف اسی کے ذریعے استعمار کو شکست دی جا سکتی ہے۔” نوآبادیاتی نظام بذات خود تشدد پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ بھی تشدد کے بغير مکمن نہیں ہے۔ فینن کے مطابق مظلوم تشدد کا انتخاب نہیں کرتا بلکہ اسے ایک ایسے تشدد زدہ ماحول میں پیدا کیا جاتا ہے جہاں مزاحمت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا ہے۔ کمانڈر انچیف بشیر زیب بلوچ کا یہ جملہ “ہمیں آنسو نہیں بہانے بلکہ دشمن اور اس کے ایجنٹوں کو رلانا ہے” یہ الفاظ فینن کے اس نظریہ کی عکاسی کرتا ہے جو وہ تشدد کو ایک اختیاری عمل کے طور پر نہیں بلکہ ریاستی جبر کے ردعمل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جب بلوچ عوام کو جبری گمشدگیوں فوجی آپریشنوں اور قومی شناخت و بقا کے خاتمے کا سامنا ہو تو ان کے نزدیک مسلح جدوجہد ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ آزادی کی جدوجہد میں مزاحمت کی پہلی شرط ہتھیار اٹھانے کو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ بندوق ہی وہ قوت ہے جو استعماری ظلم کے متبادل بیانیے کو جنم دے سکتی ہے۔ استعماری ڈھانچہ اپنی بنیاد میں تشدد پر قائم ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ محکوم عوام کو غیرمسلح اور غیرمزاحم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ فینن ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک محکوم عوام جب خود کو آزادی کے لیے متحرک کرتے ہیں تو ان کے لیے سب سے پہلا قدم اپنے خوف سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ سنگت بشیر زیب بلوچ اسی خوف کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر لڑنا ہوگا۔

چیئرمین بشیر زیب بلوچ کی پیغام میں جو سب سے گہرا نکتہ نظر آتا ہے وہ ان ایجنٹوں کے خلاف نفرت ہے جو استعماری طاقت کے اندرونی ستون بن جاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ “بلوچ سردار بھی نشانہ پر ہیں جو ریاست کے ساتھ تعاون کرتے ہیں” وہ یہ بھی کہتا ہے کہ “یہ سردار پاکستانی فوج کے جوتے اپنے منہ میں اٹھائے پھرتے ہیں اور بلوچ محض نام کے ہیں”۔ چی گویرا اور ماوزے تنگ نے کہا تھا کہ انقلاب کیلئے صرف بیرونی سامراج کو شکست دینا کافی نہیں بلکہ ان داخلی عناصر کا بھی صفایا کرنا ضروری ہے جو سامراجی قوتوں کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام ہمیشہ دو ہی جنگ لڑتا ہے ایک جانب براہِ راست محکوم قوم پر ظلم کرتا ہے اور دوسری طرف مقامی دلالوں کے ذریعے نفسیاتی غلامی کو مسلط کرتا ہے۔ فینن کا کہنا ہے کہ استعماری نظام کے سب سے وفادار محافظ ہمیشہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو استعماری ڈھانچے کے اندر رہ کر اپنی برتری برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ایمی سیزر اپنے کتاب Discourse on Colonialism میں لکھا تھا کہ “سب سے بدترین مظالم وہ ہوتے ہیں جو محکوموں کے اندر سے پیدا ہونے والے غدار خود اپنی قوم پر کرتے ہیں، کیونکہ وہ استعمار کی خوشنودی کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔” یہی نکتہ سنگت بشیر زیب بلوچ کی پیغام میں بھی جھلکتا ہے جب وہ بلوچ دلالوں اور ایجنٹوں کو پنجابی ریاست سے بھی زیادہ بے غیرت اور خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ طبقہ صرف بلوچ عوام کے قاتل نہیں بلکہ ان کی شناخت کے دشمن بھی ہیں۔

چیئرمین بشیر زیب بلوچ کے الفاظ میں ہمیں استعمار کے خلاف اس نفرت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ سارتر کہتے ہیں کہ جب ایک محکوم قوم کے دل میں مزاحمت کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے تو وہ صرف استعماری طاقت کے خلاف نہیں اٹھتی بلکہ اس کے پورے ڈھانچے کو ملبے میں بدلنے کے لیے برسرپیکار ہو جاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب نفرت صرف جذباتی ردعمل نہیں رہتی بلکہ ایک منظم اور فلسفیانہ تحریک میں بدل جاتی ہے۔ چیئرمین بشیر زیب بلوچ کی پیغام میں اس نفرت کو ایک آخری جنگ کی شکل دینے کی بات کی گئی ہے جہاں دشمن کے خاتمے کو حتمی اور مکمل بنا دیا جائے۔ میرے خیال میں ان کے مطابق اگر بلوچ مزاحمت کو آخری حد تک نہ لے جایا گیا تو غلامی کی زنجیریں برقرار رہیں گی اور ہر آنے والی نسل انہی آنسوؤں کے ساتھ اپنی تاریخ دہرائے گی۔ یہ نظریہ ہمیں فینن کے اس نتیجے کی یاد دلاتا ہے کہ “آزادی ایک پودے کی طرح نہیں اگتی، اسے جنگ کے میدان میں جیتا جاتا ہے، اور اس کی قیمت ہمیشہ خون سے ادا کی جاتی ہے۔”

بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر انچیف بشیر زیب بلوچ کا پیغام نوآبادیاتی جبر کے خلاف نفسیاتی، معاشرتی اور مسلح جدوجہد کا وہ تسلسل ہے جسے دنیا کے ہر محکوم اور مزاحمتی عوام نے کسی نہ کسی شکل میں اپنایا ہے۔ یہ پیغام کسی وقتی تحریک کا جزو نہیں بلکہ نوآبادیاتی ظلم کے خلاف بلوچ عوام کی مزاحمت کو ایک نظریاتی و فلسفیانہ استحکام دینے والا اعلان ہے۔ اس اعلان کا اختتام ہمیں اس فیصلے کی دہلیز پر لے آتا ہے جس کا ذکر فینن نے کیا تھا کہ “یا تو محکوم اپنی بقا کی جنگ جیت کر خود کو ایک آزاد انسان ثابت کرے یا پھر غلامی کو اپنی تقدیر سمجھ کر اپنی شناخت اور تاریخ کو ہمیشہ کے لیے کھو دے۔” چیئرمین بشیر زیب بلوچ نے واضح کر دیا ہے کہ بلوچ عوام کے پاس غلامی کو قبول کرنے کا کوئی راستہ نہیں بچا، اور اب وہ لمحہ آ گیا ہے جب صرف ایک آخری، شدید اور بے رحم جنگ ہی انہیں ان کی سرزمین کا مکمل وارث بنا سکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔