بلوچستان میں اغیار ۔ جعفر قمبرانی

166

بلوچستان میں اغیار 

تحریر: جعفر قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں پنجابی طلبہ کی ڈومیسائل کا مسئلہ۔ کیا، کیوں اور کیسے…..؟

استحصال صرف دکھا دیکھی چوری کو نہیں کہتے، استحصال تو ان دیکھی بھی ہوتی ہے۔ جہاں غلامی راج کرتی ہو، وہاں نسل کشی، استحصال اور دغابازی سرعام ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں دیگر استحصالی سرگرمیوں کو ایک طرف رکھ کر جب ہم جعلی لوکل ڈومیسائل اور جعلی بلوچستانیوں کی بات کرتے ہیں تو ایک معمہ حل طلب ہو جاتی ہے۔

لاہور میں ایک پنجابی ہم جماعت نے ایک جملہ کھسا کہ بلوچستان کے بہت کم لوگ فیڈرل کمیشن پاس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اسی لئے اکثر پنجابی طلبہ بلوچستان کے لوکل ڈومیسائل سے سی ایس ایس میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ سچ ہے کہ یہ ایک طنز تھا مگر اس سے زیادہ ایک پیغام بھی تھا کہ بلوچستان میں طلبہ کی نا اہلی سے زیادہ حکمران نااہل ہیں جن کی وجہ سے ہماری تعلیمی نظام ذبوں حالی کا شکار ہے۔ یعنی پنجاب کے بچے وہاں اچھی تعلیم حاصل کرکے بلوچستان میں آسانی سے بڑے عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں۔

مسئلہ ان کی تعلیمی نظام کی بہتری کا نہیں، بلکہ مسئلہ ہمارے ہاں ان کے لوکل بن جانے کا ہے۔ حالیہ دنوں بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں بھی لوکل ڈومیسائل کی بنیاد پر ایم ڈی کیٹ کے نشستوں پر پنجابی طلبہ کے کامیاب ہونے کی انکشافات ہوئے ہیں۔ اسی طرح کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی غیر بلوچستانی آفیسروں کی بھرمار ہے۔ ایک طرف یہ بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہے اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی مترادف ہے تو دوسری طرف عام عوام کے دفتری کاموں میں رکاوٹیں ڈالنے کی بھی ایک سعی ہے۔

یعنی میڈیکل سے لے کر بیوروکریسی، انجینرنگ، کاروبار و دیگر تمام جگہوں پر بلوچستان کے طلبہ سے کہیں بہتر اداروں میں پڑھنے والے پنجابی طلبہ منتخب ہو رہے ہیں، جو کہ استحصالی نظام کا ایک حصہ ہی تو ہے۔

اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ نادرا جہاں بائیو میٹرک تصدیق لازمی ہونے اور بہت ساری سختیوں کے باوجود پنجابی طلبہ کو کس طرح لوکل ڈومیسائل دی جاتی ہے؟

المیہ یہ ہے کہ جہاں بلوچستان میں حقوق کی پامالی کی بات آجائے، وہاں اداروں کی اپنی پالیسیاں، اصول و قوانین بھلا دیے جاتے ہیں۔ کیوں؟ یعنی نادرا جہاں بلوچستان کے اپنے لوگوں کے ساتھ غیر اخلاقی، بدعنوانیوں سے بھرپور سخت گیر موقف اور رویہ اختیار کرتا ہے، وہاں پنجاب کے طلبہ کو بلوچستان کا ڈومیسائل دینا نادرا سمیت حکام اور ذمہ داروں کی اہلیت پر سوال کھڑا کرتا ہے۔

بطور بلوچ میں اس حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ بلوچ قوم اب سمجھ جائے گی کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے اور ہر صورت ہو رہا ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے، ورنہ عطاء اللہ مینگل بھی نہیں ہیں کہ اغیار کو بلوچستان سے نکالے جانے کی بہادری سے بات کرتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔