بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور بلوچ خواتین کے اغواء کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ احتجاجی مظاہروں کی قیادت بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کی، جبکہ اسلام آباد اور اوتھل میں بلوچ طلبہ نے بھی ان مظالم کے خلاف خاموش ریلیوں کا انعقاد کیا۔
کوئٹہ: لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی شرکت کے ساتھ مظاہرہ
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ میں بھی احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے شرکت کی, مظاہرین نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور عالمی اداروں سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
احتجاجی ریلی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیوں اور قتل عام کا سلسلہ ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ مقررین نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کریں۔
تربت: بلوچ یکجہتی کمیٹی کی احتجاجی کیمپ قائم
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی کال پر نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف تربت میں شہید فدا چوک پر تین روزہ احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا ہے جس میں لاپتہ افراد کے فیملی ممبران بھی شامل ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما شاہ جی صبغت اللہ نے دیگر ساتھیوں اور خواتین کارکنان کے ہمراہ گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں تین روزہ احتجاجی کیمپ اور آن لائن احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
احتجاجی کیمپ میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان اور عام لوگ شریک ہیں۔ بی وائی سی کے مطابق کیمپ کا مقصد بلوچستان بھر میں سیاسی کارکنوں کی ماورائے عدالت و آئین قتل اور جبری گمشدگیوں کو دنیا کے سامنے آشکار کرانا ہے۔ منتظمین کے مطابق احتجاجی کیمپ کل پیر اور پرسوں منگل کو بھی جاری رہے گا۔
نوشکی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی احتجاجی ریلی
بلوچ یکجہتی کمیٹی نوشکی زون کے زیر اہتمام میر گل خان نصیر لائبریری سے نوشکی پریس کلب تک ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی ریلی میں سیاسی و سماجی کارکنوں انسانی حقوق کے نمائندوں اور عام شہریوں نے شرکت کی۔
مظاہرین نے خضدار میں ‘ڈیتھ اسکواڈ’ کے ہاتھوں عاصمہ بلوچ کے اغواء، تربت میں اسکالر اللہ داد بلوچ کے ماورائے عدالت قتل اور خاران سے مبارک بلوچ و حافظ حضرت علی بلوچ کی جبری گمشدگی کی شدید مذمت کی۔
ریلی کے شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچ نسل کشی کی یہ پالیسی نوآبادیاتی حکمت عملی کا تسلسل ہے جس کا مقصد بلوچستان میں شعور و بیداری کو کچلنا ہے۔
خاران میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا دھرنا جاری
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے خاران میں لاپتہ مبارک بلوچ اور حافظ حضرت علی بلوچ کی بازیابی کے لیے جاری دھرنے میں شرکت کی، مظاہرین کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کو اذیت میں مبتلا کر رہے ہیں۔
خاران ریڈ زون میں جاری دھرنے میں شریک مظاہرین نے واضح کیا کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف مزاحمت ہر حال میں جاری رہے گی، انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
مستونگ اور قلات میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اعلان پر مستونگ اور قلات میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اس موقع پر شہر میں تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہیں، جبکہ شہریوں نے ریاستی مظالم کے خلاف مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ عاصمہ بلوچ کے اغواء، اللہ داد بلوچ کے قتل اور جبری گمشدگیوں کے واقعات ریاستی بربریت کی انتہا ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام ایسے ہتھکنڈوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں بلکہ ان مظالم کے خلاف مزید منظم ہوں گے۔
چاغی، دالبندین، نوکنڈی اور یک مچ میں مظاہرے
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام چاغی، دالبندین، نوکنڈی اور یک مچ میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تمام بلوچوں کو فوری بازیاب کیا جائے اور ماورائے عدالت قتل کے سلسلے کو بند کیا جائے۔
اسلام آباد: بلوچ طلبہ کی خاموش ریلی
اسلام آباد بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے تربت میں ‘ڈیتھ اسکواڈ’ کے ہاتھوں قتل کیے گئے بلوچ طالب علم اللہ داد بلوچ کے قتل کے خلاف خاموش ریلی کا انعقاد کیا گیا۔
یہ ریلی قائداعظم یونیورسٹی کے اندر نکالی گئی، جس میں بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کر کے اپنے احتجاج کو ریکارڈ کروایا۔
طلبہ کے مطابق اللہ داد بلوچ کو ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے تربت میں فائرنگ کر کے شہید کیا۔ وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا طالبعلم تھا، اور اس کا قتل کسی انفرادی دشمنی یا وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں بلکہ بلوچستان میں جاری نوآبادیاتی جبر کا تسلسل ہے، جہاں علم اور شعور کو ریاست کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
ریلی کے منتظمین کا کہنا تھا کہ خاموش ریلی ظلم کی قبولیت نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے جو عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ تک پہنچایا جا رہا ہے۔
شرکاء نے مطالبہ کیا کہ ریاست کو بلوچوں کے خلاف جاری جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور اجتماعی سزاؤں کے سلسلے کو فوری بند کیا جائے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور ریاستی جبر کے دیگر ہتھکنڈے صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں بلکہ شعور کی سرکوبی اور اجتماعی یادداشت کو مٹانے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔
اوتھل: طلبہ کی خاموش ریلی
اوتھل میں بھی طلبہ نے عاصمہ بلوچ کے جبری اغوا اور اسکالر اللہ داد بلوچ کے قتل کے خلاف احتجاج کیا بڑی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی۔
ریلی کے منتظمین کا کہنا تھا کہ اللہ داد بلوچ کی شہادت محض ایک سانحہ نہیں بلکہ غلامی اور جبر کے خلاف جاری تاریخی جدوجہد کا تسلسل ہے۔
ریلی کے آخر میں بلوچ طلبہ نے بلوچ قوم کو یکجہتی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ ریاستی دہشت گردی اور جبر کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد جاری رکھیں، کیونکہ یہ ان کی بقاء اور آزادی کی جدوجہد ہے۔
مظاہرین نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور خواتین کے اغوا جیسے سنگین جرائم پر فوری نوٹس لیں اور ان مظالم کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں۔