بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان بالخصوص مکران میں میں صورتحال تشویشناک ہے۔ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب کسی بلوچ کی لاش نہ ملی ہو۔ ٹارگٹ کلنگ، اغوا، اور طلباء، اسکالرز اور یہاں تک کہ 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کے قتل میں اضافہ ہوا ہے۔ اللہ داد بلوچ، عبدالواحد، حاتم علی، حیات سبزل اور معراج بلوچ کو نشانہ بنانا ریاست کی قتل و غارت گری کی پالیسی کو ایک بار پھر سے ظاہر کرتا ہے۔ ایک ماہر تعلیم شریف ذاکر کو بھی کئی بار ڈیتھ اسکواڈ نے نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز ضلع کیچ کے تمپ سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ معراج ولد عبدالقادر کو دن دیہاڑے ڈیتھ اسکواڈز نے گولی مار کر قتل کر دیا۔
انہوں نے کہاکہ یہ واقعات الگ تھلگ نہیں ہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی اور مزاحمت کو کچلنے کے لیے اجتماعی سزا کے ایک حصہ ہیں۔ پاکستانی فورسز اور ان کی سرپرستی میں مقامی ڈیتھ اسکواڈز ان جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ باشعور اور تعلیم یافتہ بلوچ ان کا اولین ہدف ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچ نوجوانوں اور بچوں کے اس طرح کے بے رحمانہ قتل کی مزاحمت کرنے کا عزم کرتی ہے۔ بلوچ قوم کو ہر قتل پر کھڑے ہو کر آواز اٹھانی چاہیے اور سب سے بنیادی ’حق زندگی‘ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ بلوچستان میں کس طرح نسل کشی کی جا رہی ہے۔